ایران (جیوڈیسک) مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے نتیجے میں عالمی تنہائی کا شکار ہونے والے ایران اور قطر نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا۔ دونوں ملکوں کو درپیش معاشی بحران اور عالمی سطح پر دونوں ملکوں کی تنہائی انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے۔
“7dnews” ویب سائٹ پر تجزیہ نگار احمد فتحی نے اپنے مضمون میں ایران اور قطر کی باہمی قربت کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔ فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں ’’کہ ایران اور قطر دونوں پڑوسی ملکوں کے بائیکاٹ کا سامنا کرنے کے ساتھ عالمی تنہائی کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ ‘ایک سکے کے دو رخ’ کے مصداق دونوں ممالک کے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے قربت میں بتدریج اضافہ ہوا۔
دو ہزار سترہ میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کا سفارتی اور معاشی بائیکاٹ کیا۔ قطر پر خطے کے دوسرے ممالک میں مداخلت، دہشت گردوں کی پشت پناہی، اخوان المسلمون اور القاعدہ کے عناصر کو پناہ دینے، یمن، لبنان، شام اور دوسرے ملکوں میں اپنے ایجنٹ بھرتی کرنے کا الزام عاید کیا گیا۔
حال ہی میں چھ جولائی کو ایران کے صوبہ فارس کے گورنر عنایت اللہ رحیمی نے قطر کا دورہ کیا۔ رحیمی کے ہمراہ آنے والے ایرانی تاجروں نے قطر میں موجود کاروباری اور حکومتی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں۔ عنایت اللہ رحیمی نے بتایا کہ انہوں نے قطری حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں دوطرفہ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی شعبوں میں تعاون سے اتفاق کیا ہے۔
قطر میں ایرانی سفیر محمد علی سبحانی نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے جنوبی اضلاع کے قطر کے ساتھ گہرے اقتصادی تعلقات ہیں مگر ایران کے دوسرے صوبے اور اضلاع بھی دوحا اور تہران کے درمیان جاری تعلقات کے فائدوں سے محروم نہیں۔
تجزیہ نگار احمد فتحی کا کہنا ہے کہ ایران اور قطر کی باہمی تجارت اور درآمدات وبرآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جب سے عرب ممالک نے قطر کا بائیکاٹ کیا ہے، دوحا نے تہران کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے کے لیے دن رات کام شروع کر رکھا ہے۔ عرب ممالک کی جانب سے قطر کی فضائی سروس کے بائیکاٹ کے بعد دوحا اور تہران کے درمیان یومیہ 200 اضافی پروازیں چلائی جا رہی ہیں۔