نئے سال 2018 میں صدر ٹرمپ کی پہلی ٹویٹ نے ہی پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلی تھی ۔ٹرمپ نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ کہ ”امریکہ نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو گزشتہ 15 سالوں کے دوران 33 ارب ڈالر کی خطیر مالی امداد دی ہے اور اس کے بدلے میں پاکستان نے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستان ہمارے لیڈرز کو احمق سمجھتا ہے”۔ اب 2018کا اختتام ہورہا ہے تو امریکی صدر ٹرمپ شام اور افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا اظہار اور پاکستان سے مدد کی درخواست کررہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ مسلسل ٹرمپ پالیسیوںپرششدر ہے۔ 2019 کا سال افغانستان اور شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے اہم ترین سمجھا جارہا ہے ۔2018کا پورا سال امریکی بالادستی کی جنگ پر میحط رہا ہے۔ عالمی سیاسی و جنگی منظر نامے میں امریکا کا کردار ہر جگہ نظر آتاہے ۔امریکا 2018میں کئی عالمی معاملات میں براہ راست مداخلت کا سبب بنا رہا ۔ شام ، افغانستان کے علاوہ ، ماحولیاتی آلودگی کے عالمی معاہدے سے علیحدگی کے مضمرات ، خلائی بالادستی آغاز، شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی جنگ کی دہمکیاں ، سعودی صحافی جمال خوشگی کے قتل کو لے کر سعودی عرب پردبائو ڈالنے کی کوشش، اسرائیلی سفارت خانے پر اقوام متحدہ میں شکست پربرہم ، ترکی ، جرمنی، روس اورچین کے ساتھ بڑھتی کشیدہ صورتحال اور خراب تعلقات ۔تو دوسری جانب تہران اور پیرس نے داخلی معا ملات میں امریکا کو سخت تنبہہ بھی کی کہ وہ احتجاجی مظاہروں کی پشت پناہی سے باز رہے۔پاکستان پر امریکا کی جانب سے ڈومور کے مطالبے اور الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن حکومت نے امریکا کے کسی ڈومور پر عمل کرنے سے انکار کردیا اور خطے میں قیام امن کے لئے برابری کی سطح پر بات چیت پر آمادہ کیا ۔ اس وقت پاکستان خطے میں قیام امن کے لئے ایک اہم کلیدی حیثیت کے ساتھ عالمی قوتوں کے ہمراہ اہم کردار ادا کررہا ہے۔
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل عالمی امن وا مان کے حوالے سے اپنا موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے، کشمیر، فلسطین ، یمن ، شام افغانستان اور برما کے بحران کا خاتمہ تو نہیں کرسکی لیکن سلامتی کونسل نے چھ نئے غیر مستقل ارکان کوٹوریل گنی، آئروی کوسٹ، کویت، نیدرلینڈز، پیرو اور پولینڈ اور بیلجئم ، ڈومنیک ریپبلک، جرمنی، انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مستقل اراکین کے لیے منتخب کرلیا گیا، مستقل اراکین سلامتی کونسل میں شامل ہونے والے پانچوں ملک یکم جنوری 2019ء سے اُس 15 رکنی تنظیم کے دھارے میں شامل ہوں گے جو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے امور کی ذمہ دار ہوگی۔ 2018میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اختلافات کی وجہ سے اعلیٰ عہدے داروں کا علیحدگی کا سلسلہ جاری رہا۔
وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو عہدے سے برطرف کر نے کے بعد اُن کی جگہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو کو امریکہ کا نیا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔جبکہ سی آئی کی ڈپٹی ڈائریکٹر جینا ہیپسل سی آئی اے کی ڈائریکٹر مقرر ہوئی۔ رواں سال کے آخر تک چیف آف اسٹاف جان کیلی عہدہ چھوڑ دیں گے۔ جبکہ امریکی وزیرِ دفاع جم میٹس کے ساتھ عالمی اتحاد کے خصوصی ایلچی مک گرک نے بھی استعفیٰ دے دیا۔2018امریکی صدر کے لئے اچھا برس نہیں رہا ۔نومبر2018میں وسط مدتی انتخابات میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس کو اکثریت حاصل ہوئی، نئی کانگریس کا اگلا اجلاس جنوری 2019میں منعقد ہوگا۔
سفارتی پالیسیوں سے لے کر مہاجرین کے کوٹے کے معاملے، اور دنیا بھر کے علاقائی امور پر ایوان میں ڈیموکریٹ اس بات پر مصر ہیں کہ ”امریکی صدر کا محاسبہ کیا جائے” کی پالیسیوں کا احتساب کیا جائے، ۔سال کے آخری میں امریکا میں شٹ دائون اور 2008 کے بعد اسٹاک ایکسچینج میں مندی بھی انہی اثرات کی وجہ سے امریکی صدر کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے گررہا ہے ۔ جنوبی کوریا نے شمالی کو ریا کو اعلیٰ سطح کے مذاکرات کی پیشکش کی۔ اس پیش کش کے بعد جنوبی و شمالی کوریا کے درمیان ازسرنو تعلقات کی تاریخ رقم ہوئی ۔ سرمائی اولمپکس کے انعقاد سے شروع ہونے والا مثبت تعلقات کا ایک نیا سفر دونوں ممالک میں شروع ہوا۔ امریکی اعلیٰ حکام نے بھی شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کئے جس کے نتیجے میں شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور دونوں سربراہوں نے بالاآخر ملاقات کرکے دنیا کو نئی ایٹمی جنگ کی خدشے سے دور کردیا۔
چین نے شمالی کوریا پر لگنی والی امریکی و اقوام متحدہ کی پابندیوں پر بڑا موثر کردار ادا کیا اور مذاکرات کے لئے امن کو ایک موقع دیا ۔ شمالی کوریا اپنے پروگرام سے پیچھے ہٹا اور کئی اہم ایٹمی پروگراموںمیں عالمی برداری کے خدشات دور کئے ۔ تاہم اقوام متحدہ اس بات کا بھی اظہار کرتے رہے کہ شمالی کوریا نے اپنا ایٹمی میزائل پروگرام ختم نہیں کیا ۔
سعودی عرب اور یمن کے درمیان جنگ ایک مرحلے پر جنگ بندی کے لئے مذاکرات پر آمادہ ہوئی لیکن یمن میں جنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکا ۔ یمن جنگ کے خاتمے کے لئے پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث بننے کا اعلان کیا۔ یمن کی جنگ سعودی عرب کی معاشی صورتحال کو متاثر کررہی ہے تاہم سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان تیل کی دولت سے مالا مال اپنے ملک کو ایک معتدل اوردوسروں کا خیرمقدم کرنے والے ملک کے طور پر ابھارنے کے لئے کوشاں ہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان کے ‘ویژن 2030’ پروگرام کا مرکزی نکتہ معاشی سرگرمیوں کا فروغ اور انٹرٹینمنٹ کے شعبے سے معاشی فائدہ حاصل کرنا ہے۔سعودی حکومت نے 2017میں کئی اصلاحات کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلے کو 2018میں بھی جاری رکھا ۔ سعودی اصلاحات کے نتیجے میں سعودی عرب میںخواتین کو تاریخ میں پہلی بار جمعہ کو اسٹیڈیمز جاکر فٹبال اور فیشن ویک کی اجازت دی گئی ۔ سعودی صحافی جمال خوشگی کے معاملے پر ولی عہد کے خلاف امریکا نے سعودی عرب کو دبائو میں لانے کی کوشش کی لیکن سعودی فرما روا نے صحافی کے قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری سے لے کر تحقیقات کرانے تک ذاتی دل چسپی لے کر سعودی عرب کو بحران میں ڈالنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
شام میں داعش کی شکست دینے کے دعوے کے بعد امریکا نے فوجیوں کے انخلا کا اعلان کردیا ۔ شام میں امن کے قیام کے لئے کئی برسوں سے مسلسل کوشش کی جا رہی تھی ۔ 2018میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام، استفان ڈی مستورا ن نے ویانا میں حکومت شام اور مخالفین کے درمیان امن مذاکرات منعقد کرائے۔ ملاقات 25 اور 26 جنوری کو منعقد ہوئی۔یہ مجوزہ مذاکرات روس میں طے امن کانگریس سے کچھ ہی روز قبل ہوئے، جس کا مقصد چھ برس کی لڑائی کا خاتمہ لانے کی کوشش کرنا تھا۔ قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں روس، ایران اور ترکی کے وزرائے خارجہ کا ایک ابتدائی سہ فریقی اجلاس ہوا۔ واضح رہے کہ آستانہ میں جنوری 2017ء میں اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے مارچ 2018تک آٹھ اجلاس ہوچکے تھے۔ یہ اقوام متحدہ کی جانب سے جنیوا میں ہونے والے امن عمل کے علاوہ ایک کوشش ہے، جس کا مقصد شام میں تشدد کی کارروائیاں بند کرانے میں مدد دینا ہے۔
سہ فرقی ملاقاتیں اور صدارتی سربراہ اجلاس 2018میں تواتر سے ہوتے رہے ہیں کیونکہ نظر آنے لگا تھا شام کے تنازع میں ملوث فریق مختلف اہداف کے پیچھے چل رہے ہیں۔شام کے علاقے عفرین سے کرد فورسز ‘وائے پی جی’ کے انخلا کے بعد مارچ 2018 کو ترکی کے حمایت یافتہ شامی جنگجوئوں اور ترکی افواج نے کنٹرول سنبھال لیا اور امریکی انخلا کے بعد امن کے قیام کے لئے امریکا کو یقین دہانی کرادی ۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام پر امریکا نے شام میں چند عمارتوں کو نشانہ بنایا ۔روس اور امریکاشام کے مسئلے پر آمنے سامنے آتے رہے ۔ ترکی نے بھی شام کی صورتحال میں کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف کاروائی کی ۔ تاہم عراق سے امریکا نے اپنے فوجیوں کے انخلا سے انکار کردیا ہے۔
بھارت ہر سال 26 جنوری کو اپنا یومِ جمہوریہ مناتا ہے اور حریت پسند کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں اس موقع پر ہر برس عام ہڑتال کی جاتی ہے2018میں بھی اس روایت کو قائم رکھا گیا اور کئی حصوں میں احتجاج مظاہرے ہوئے جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔یومِ سیاہ منانے کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں کرتی ہیںـ مقبوضہ کشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے ایک گاؤں رسانہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کے ساتھ مندر میں ہندو شدت پسندوں کی جانب سے زیادتی کے واقعات نے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا ۔ اس واقعے کو لے کر مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا ۔ جون 2018میں بھارت نے مقبوضہکشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مخلوط حکومت گرجانے کے بعد ریاست میں گورنر راج اور پھر ستمبر صدارتی راج نافذ کردیا گیا۔
بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیر کے جموں علاقے میں بھارتـپاکستان سرحد پر ایک نئی فینسنگ یا باڑ کے دو آزمائشی منصوبوں کا افتتاح کیا۔ یہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے بارڈر سیکیورٹی فورس یا بی ایس ایف کے عہدیداروں نے بتایا کہ اس سمارٹ فنسینگ میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔وزیرِ داخلہ نے کہا کہ انہوں نے اسرائیل کے اپنے ایک دورے کے دوران اس طرح کی ٹیکنالوجی کو استعمال میں دیکھا تھا اور اب اسے بھارت میں بھی آزمایا جارہا ہے۔ بھارتی جارحیت پسند فوجی دستے نے پی ایچ ڈی اسکالر منان بشیر وانی اور اُن کے ایک قریبی ساتھی کو شہید کر دیا۔ سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے منان وانی کی شہادت پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ ”آج ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے زندگی کو نہیں موت کو چنا اور ایک جھڑپ کے دوران مارا گیا۔ اُس کی موت مکمل طور پر ہماری شکست ہے۔ ہم ہر روز تعلیم یافتہ نوجوان لڑکوں کو کھو رہے ہیں”۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے اور آئے روز نہتے کشمیریوں کو بڑی تعداد میں شہید و زخمی کیا جارہا ہے ۔
بھارتی سفاکیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی آرمی چیف پتھروں کا جواب گولی دینے کی بات کرتے ہیں اور تمام کشمیریوں کو دہشت قرار دیتے ہیں کہ مظاہرے کرنے والے دہشت گرد ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ 2018میں بھی جاری رہا اور نہتے کشمیری بھارتی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فلسطین کا دورہ کیا۔ کسی بھارتی وزیر اعظم کا یہ پہلا دورہ فلسطین تھا۔ گزشتہ برس اسرائیلی وزیر اعظم نتن ہاہو بھارت کا دورہ کرچکے تھے۔اسرائیل اور بھارت کے تعلقات میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ اسرائیلی ہتھیاروں کے ذریعے کشمیریوں پر کیمیائی اسلحہ استعمال کرنے کے الزامات لگے اور پاکستان نے اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔
ایران کے کئی عہدیدار وں کے اپنے پیروکاروں کے ساتھ مظاہروں نے گزشتہ سال دسمبر 2017اور رواں سال جنوری2018میں پوری دنیا کی توجہ حاصل کی۔ ایران نے امریکا پر مداخلت پر الزام کرتے ہوئے تنبہہ کی۔ مظاہرے ایران میں بے روزگاری اور وسائل بیرونی جنگ میں ملوث ہونے پر کئے جارہے تھے جو گاہ بہ گاہ پورے سال ہوتے رہے۔ ایران نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ سوشل میڈیا ان مظاہروں کو ہوا دے رہا ہے۔ ایران نے انٹرنیٹ کے استعمال پر بھی پابندی لگاتے ہوئے کئی بار نیٹ سروس بند کی۔اپریل 2018میںایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ اگر امریکہ کثیر القومی جوہری سمجھوتے سے الگ ہوتا ہے تو اس کے ردعمل میں ایران کا جوہری ادارہ ”متوقع اور غیر متوقع” اقدام کے لیے تیار ہے۔امریکا نے جنوری میں ایران سے ایٹمی سمجھوتہ ختم کرنے کے لئے برطانیہ، فرانس اور جرمنی پر زور دیا تھا کہ وہ اس سمجھوتے سے متعلق ان امور کو صحیح کرنے پر اتفاق کریں جو امریکہ کے نزدیک اس کی خامیاں ہیں، بصورت دیگر وہ امریکہ کی طرف سے تعزیرات سے استثنیٰ میں توسیع نہیں کریں گے۔یہ جوہری سمجھوتہ ایران، امریکہ اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان 2015ء میں طے پایا تھا جس کی وجہ سے تہران پر اقتصادی تعزیرات اٹھائے جانے کے عوض ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی پابند ی قبول کی۔
امریکا نے ایران کے ساتھ اپنا معاہدہ ختم کرکے مختلف پابندیوں کاطلاق کردیا ۔ امریکی اقدام کے جواب میں دسمبر میں ایران نے میزائل تجربہ کردیا اور امریکی پابندیوں کے خلاف سخت ردعمل دیا کہ اگر ایران کا تیل نہیں جائے گا تو خلیج فارس سے کسی بھی ملک کے لئے تیل کا جہاز نہیں گزر سکے گا۔امریکا کی جانب سے پابندی کو روس نے بھی مسترد کردیا جبکہ امریکا نے بھارت کو خصوصی استثنیٰ دیا ۔کیونکہ بھارت اگر ایران سے تیل مصنوعات حاصل نہیں کرے گا تو بھارت کو پٹرولیم مصنوعات کے لئے بھاری خسارے میں آجاتا ۔ ایران کے پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کو پاک ۔ایران بارڈر سے اغوا کرکے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی تاہم پاکستان اور ایرانی فورسز نے مشترکہ کاروائیوں میں اغوا ہونے والے پاسدارن انقلاب کے اہلکاروں کو بازیاب کرایا ۔
2018میں افغانستان میں افغان طالبان کی جانب سے نیٹو افواج اور افغان سیکورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا اور ہر گذرتے وقت کے ساتھ تیزی آتی رہی ۔ 2018کا آغاز کابل میں دو بڑ ے بم دھماکے سے ہوا ۔ جس میں لگ بھگ 115افراد ہلاک ہوئے ۔ جبکہ سال کے اختتام سے قبل سرکاری عمارت میں بڑا حملہ ہوا جس میں نام نہادقوم پرست اسلم اچھو اپنے ساتھیوں سمیت ہلاک ہوا جبکہ43افراد مزید ہلاک ہوئے۔ پاک ۔ افغان تعلقات میں بہتری کی کوشش جاری رہی ۔اسلام آباد میں افغانستان کے انٹیلی ایجنسی ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے سربراہ معصوم ستانکزئی اور افغان وزیرِ داخلہ ویس برمک نے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ سیاسی و عسکری حکام اور انٹیلی جنس اداروں کی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور برس کے اختتام تک تسلسل سے یہ سلسلہ جاری رہا ۔23دسمبر کو پاکستانی وزیر خارجہ نے افغان صدر اشرف غنی سے ون ٹو ون ملاقات کرکے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کی جانب سے تعاون کا عملی مظاہرہ کیا ۔
پاکستانی وزیر خارجہ سال کے اختتام پر چار ملکی امن دورے پر ہیں ۔ماہ فروری میں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں افغانستان میں ممکنہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف 11 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ دستاویزات میں طالبان اور اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ ساتھ افغان سیکیورٹی فورسز اور حکومت سے منسلک وار لارڈز پر ظلم و زیادتی اور بربریت کے الزامات عائد کیے گئے ۔ امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا، ایلس ویلز نے جنوری کے بعد اپریل 2018میں پاکستان میں 7روزہ دورے کو مکمل کیا، پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ بھی امریکا کا دورہ کرچکی تھی۔ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیجی زاد بھی پاکستان اور افغانستان کے ساتھ کئی ممالک کے بامقصد دورے کرچکے ہیں ۔امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں ۔افغانستان کے لیے امریکی حکومت کے نگران ادارے نے مئی 2017 کی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پچھلے سال کے دوران افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کی تعداد میں تقریباً 11 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ افغانستان کی فورسز کے منظور شدہ اہل کار تین لاکھ 34 ہزار ہیں۔جبکہ بیرون ممالک کے تقریباََ20ہزار فوجی افغانستان میں موجودہ ہیں ۔ جس میں 14ہزار کے قریب امریکی ہیں ،ان میں 7ہزار فوجی واپس بلانے کا عندیہ امریکی صدر دے چکے ہیں۔افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق خصوصی انسپکٹر جنرل (ایس آئی جی اے آر) کی جانب سے جاری کردہ سہ ماہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں افغان فوج کی نفری میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ45 فیصد علاقے پر کابل حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔
امریکی فضائی افواج کی مرکزی کمان کی جانب سے جاری کردہ اعداد کے مطابق، 2018ء کے پہلے تین ماہ کے دوران اتحادی لڑاکا طیاروں نے افغانستان میں 1186 بم گرائے۔ اس ضمن میں پچھلا ریکارڈ 2011ء کا ہے جب لڑائی زوروں پر تھی اور 1083 بم گرائے گئے تھے۔ امریکہ نے سنہ 2001 اور 2003 کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔اِن اعداد میں وہ ڈیٹا شامل نہیں ہے جو کارروائیاں افغان فضائی فوج (اے اے ایف) کرتی رہی ہے، جس نے دو برس قبل فضائی حملوں کی صلاحیت حاصل کی تھی، جس کے بعد فضائی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ افغان وزارتِ دفاع کے مطابق، افغان ایئر فورس روزانہ 4 سے 12 فضائی کارروائیاں کر رہی ہے۔اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ 2018ء کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران افغانستان میں پیش آنے والے مختلف پرتشدد واقعات اور حملوں میں لگ بھگ 1700 عام شہری ہلاک ہوئے۔عالمی ادارے کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران کسی بھی سال کی پہلی ششماہی میں افغانستان میں عام شہریوں کی اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔عالمی ادارے کے افغان مشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان حکومت اور اس کے اتحادیوں کے فضائی حملوں میں جنوری سے جون 2018ء کے دوران 149 عام شہری ہلاک ہوئے۔ان ہلاکتوں میں سے 52 فی صد افغان فورسز جب کہ 45 فی صد نیٹو فورسز کے فضائی حملوں میں ہوئیں۔2019کو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے محدودانخلا کا سال قرار دیا جارہا ہے۔
مارچ 2018میں چین نے پاکستان کو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی کا حامل طاقتور آپٹکل ٹریکنگ اینڈ مژرمنٹ سسٹم فروخت کیا ہے، جس سے پاکستان کو اپنے میزائل پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھاتے ہوئے MERV یعنی متعدد اہداف کو ایک ساتھ الگ الگ میزائلوں سے نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل ہوگئی اور، اس کے ساتھ ہی دشمن ملک سے آنے والے میزائلوں سے دفاع بھی باآسانی کیا جا سکتا ہے۔یہ پاکستان کے دفاعی صلاحیتوں میں بڑی اہم پیش رفت قرار دی گئی ۔امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی نے اس ماہ کے شروع میں اطلاع دی تھی کہ پاکستان جنوری 2017 میں جوہری صلاحیت کے حامل ‘ابابیل’ میزائل کا پہلا تجربہ کر چکا ہے جو جنوبی ایشیا میں پہلا MERV لانچ تھا۔چین کے ادارے CAS انسٹی ٹیوٹ آف آپٹکس اینڈ الیکٹرونکس کے محقق ژینگ مینگ وائی کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے حال ہی میں اس چینی ساختہ نظام کو استعمال کرتے ہوئے ایک فائرنگ رینج میں اپنے متعدد نئے میزائلوں کا تجربہ کیا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ ”بھارت نے ایسے میزائل تیار کئے ہیں جن سے زیادہ طاقت کے بم کو لمبے فاصلے تک داغا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان MERV یعنی ایسے لانچنگ پیڈ بنانے پر توجہ دے رہا ہے جن سے ایک ہی وقت میں جوہری بموں سے لیس متعدد میزائل الگ الگ نشانوں کی طرف روانہ کئے جا سکیں گے۔پاکستانی بحریہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بابر تھری میزائل بھارتی چیلنج کا جواب دینے کے لئے ہی بنایا ہیجوہری حملے میں بھارتی پہل کا توڑ حاصل کیا۔ ستمبر2018 ایڈمرل عباسی کا کہنا تھا کہ بحری ایٹمی صلاحیت کسی بھی ملک کو جوابی کارروائی کرنے کی صلاحیت دیتی ہے اور یہ صلاحیت نہ ہونے کی صورت میں بھارت زمینی جنگ میں پہل کرسکتا تھا۔ یہ جارحانہ حکمت عملی نہیں ہے لیکن ہم نے یہ صلاحیت حاصل کرکے کسی زمینی حملے کے امکان کو مسدود کر دیا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے خلاف بریگزٹ سے متعلق ایک معاہدے کی بنا پر پارلیمان میں تھریسا مے کے خلاف اُن کی اپنی جماعت ‘کنزرویٹو پارٹی’ کے ارکانِ پارلیمان نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تھی جو ناکام ہوئی۔ اُن کے حق میں 200 اور مخالفت میں 117 ووٹ پڑے۔فرانس میں یٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز 17 نومبر کو ہوا تھا جس کے بعد سے پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں اب تک چار افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔فرانس کی حکومت احتجاج کے بعد پیٹرولیم مصنوعات پر نافذ ٹیکسوں میں اضافے کا منصوبہ موخر کرنے کا اعلان کرچکی ہے لیکن مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور مظاہرے بڑی حد تک حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہوگئے ہیں۔مظاہرین اب معاشی پالیسیوں میں تبدیلی، مزدوروں اور طلبہ کو مراعات دینے اور روزگار کے تحفظ جیسے مطالبات کر رہے ہیں۔2018کے عالمی سیاسی منظر نامے میں امن کے لئے پیش رفت اور کوششوں میں اضافے کا رجحان نظر آیا ہے اور اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ 2019کئی اچھی خبریں لا سکتا ہے۔شام ،افغانستا ن اور یمن جنگ کے خاتمے کی توقعات ہیں لیکن فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہی رہے گا۔