امریکی کانگریس کی کمیٹی نے یوکرائن کے لئے نئے مالیاتی معاونت بل کی منظوری دی ہے جس میں پاکستان کو کیری لوگر بل کے تحت دی جانے والی امداد کا کچھ حصہ کم کرکے یوکرائن کو دیا جائے گا اس بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو سالانہ 1.5ارب ڈالر کی جو امداد دی جاتی ہے اس میں سے دس ملین ڈالر کاٹ کر یوکرائن میں نشریاتی پروگراموں کیلئے مختص کی جائے جس میں بالکان ، روس ، تاتار زبانوں کی ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی اور وائس آف امریکہ کے پروگرام شامل ہیں پر صرف کی جائے اس قانون سازی کو ایچ آر فور ٹو سیون ایٹ یوکرائن سپورٹ ایکٹ کا نام دیا گیا ہے جو ایوان کی خارجہ کمیٹی سے مرحلہ وار منظور کیا گیا ہے یہ بل گزشتہ ہفتے کمیٹی کے چیئرمین ایڈروئس اور ایک اور عہدیدار ایلیوٹ اینگل نے متعارف کروایا تھا جس میں یوکرائن کی خود مختاری اور اس کے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کیلئے امریکی مالی معاونت کی درخواست کی گئی تھی۔
امریکی انتظامیہ نے یہ امداد امریکی بجٹ سے دینے کی بجائے پاکستان کو کیری لوگر برمن بل جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کیلئے مالی امداد دی جاتی ہے اور اس کو پاکستان ایکٹ 2009ء کا نام دیا گیا تھا جس میں سالانہ پاکستان کو 1.5ارب ڈالر کی امداد دی جاتی تھی لیکن امریکی حکام نے پاکستان کی بجٹ میں سے دس ملین ڈالر کی امداد پر کٹ لگا کر اس کو ایچ آر 4278بل کا حصہ بنایا ہے جو یوکرائن میں استعمال ہوگی۔ دوسری جانب نیو یارک ٹائمز نے امریکی انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کی قیادت نے اپنے بعض اہم ارکان کو شام منتقل کیا ہے۔
خانہ جنگی زدہ ملک میں وہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا حصہ بننے کے لئے پہنچ رہے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد ایک نیا مرکز قائم کرنا ہے جہاں سے وہ امریکہ اور مغربی ممالک پر حملے کر سکیں۔سی آئی اے کے سربراہ جان برینن John Brennan نے کانگریس کے ایک پینل کو بھی اس بارے میں تفصیلی بریفنگ دی ہے ۔ ان معلومات کے مطابق حالیہ مہینوں میں القاعدہ کے درجنوں جنگجو اور منصوبہ سازوں کو شام بھیجا گیا ہے ۔ ان لوگوں کے لئے افغانستان میں نیٹو افواج کی کارروائی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے حالات کافی مشکل ہو گئے تھے۔ ان کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے لیکن ان لوگوں کے پاس جنگی استعداد اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے اور ان منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اپنے جنگجووں کو پاکستان سے شام منتقل کرنے کی کارروائی کی نگرانی القاعدہ کا سربراہ ایمن الظواہری خود کر رہا ہے۔ یہ لوگ شام میں اپنے ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ مقامی آبادی کے علاوہ یورپ اور امریکہ سے 1200 کے لگ بھگ انتہا پسند مسلمان بھی شام میں جنگ کی غرض سے پہنچے ہوئے ہیں۔ القاعدہ کا خیال ہے کہ لوگ آسانی سے ان کے چنگل میں آ سکتے ہیں اور انہیں امریکہ اور مغربی ممالک پر حملوں کے لئے استعمال کرنا بھی آسان ہے۔ القاعدہ اس سے پہلے یمن میں اپنا ٹھکانہ بنانے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔تاہم موجودہ حالات میں دہشت گرد گروہ کو شام سب سے زیادہ پرکشش دکھائی دیتا ہے ۔ امریکہ اپنی عالمی سیاسی و سفارتی مجبوریوں کی وجہ سے شام پر براہ راست ڈرون حملے کرنے یا شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل نہیں ہے ۔ شام میں وسیع تباہ کاری اور بشار الاسد اور اپوزیشن کے درمیان عدم مفاہمت کی وجہ سے القاعدہ جیسی تنظیموں کے لئے حالات بے حد سازگار ہیں۔
نیٹو افواج افغانستان سے نکلنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ القاعدہ اور طالبان طویل عرصے تک ایک دوسرے کا دست و بازو بنے رہے ہیں۔ البتہ القاعدہ کے مقاصد شروع سے ہی بین الاقوامی رہے ہیں جبکہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان محض علاقائی صورتحال میں اپنی جگہ بنانے کے لئے کوششیں کرتے رہے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں القاعدہ کو طالبان سے اخلاقی ہمدردی کے علاوہ زیادہ امداد ملنے کی امید نہیں ہے۔
Pakistan
افغان طالبان کابل کی حکومت پر قبضہ کرنے یا اسے مسلسل زچ کرنے کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے ۔اس دوران پاکستانی طالبان مذاکرات کے ذریعے حکومت پاکستان سے مراعات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ مذاکرات اب براہ راست حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ہو رہے ہیں۔ یہ مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں قبائلی علاقوں کے انتہا پسند گروہوں کے لئے القاعدہ کی منصوبہ بندی کا حصہ بننا ممکن نہیں ہو گا۔ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں فوج شمالی وزیرستان میں کارروائی کرے گی۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ مقامی باشندوں کے مقابلے میں قبائلی علاقوں میں پناہ لینے والے غیر ملکی انتہا پسند زیادہ خطرناک اور آمادہ بہ جنگ ہیں۔ اس لئے فطری طور پر پاکستانی فوج کی کارروائی کی سب سے زیادہ زد بھی انہی عناصر پر پڑے گی۔افغانستان سے نیٹو افواج نکلنے کے بعد امریکہ اور مغرب مخالف نعروں میں بھی وہ تاثیر باقی نہیں رہے گی جس کی وجہ سے انتہا پسند گروہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے نوجوانوں کو ورغلا کر انتہا پسندی اور خودکش بمبار حملے کرنے کے لئے آمادہ و تیار کرتے رہے ہیں۔ ان حالات میں القاعدہ کو ایک نئے ٹھکانے کی ضرورت کافی عرصہ سے محسوس ہوتی رہی ہے۔
اس سے قبل یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ طالبان کے انتہا پسند بھی شام میں بشار الاسد کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لئے روانہ ہوتے رہے ہیں۔ تاہم اب جو خبریں سامنے آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتہا پسندوں کا اصل ٹارگٹ شام کی حکومت نہیں ہے بلکہ وہ ایک زیادہ محفوظ ٹھکانہ تلاش کر رہے ہیں تا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے فروغ کے عملی کام کو جاری رکھا جا سکے ۔پاکستان کے نقطہ نظر سے بھی یہ نقل مکانی اچھی خبر نہیں ہے۔ شام میں پاوں جمانے کے بعد القاعدہ اور اس کے ساتھ منسلک دیگر گروہوں کو نئے وسائل اور بھرتی کے لئے نئے رضا کار میسر آ جائیں گے۔ پاکستان سے انتہا پسندوں کی دوسرے ملکوں میں روانگی بھی ملک کی شہرت اور دوسرے ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ایران اور سعودی عرب اپنے اپنے طور پر شام کی جنگ میں ملوث ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے زور لگا رہے ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے کی صورت میں انتہا پسند گروہوں کے لئے صورتحال زیادہ پسندیدہ ہو سکتی ہے۔عالمی سطح پر شام کا بحران امریکہ اور روس کے تعاون کے بغیر حل ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ شام میں نئی حکومت کے حوالے سے ان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان شدید اختلافات موجود رہے ہیں۔ اس کے باوجود شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کا مسئلہ دونوں ملکوں نے بہتر سفارتکاری اور تدبر سے حل کر لیا تھا۔ تاہم یوکرائن میں پیدا ہونے والے بحران اور کرائمیا کو روس کا حصہ بنانے کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات انتہائی سرد ہو چکے ہیں۔ ان حالات کا اثر شام کے بحران پر بھی مرتب ہو گا۔ اب روس پہلے سے زیادہ کھل کر بشار الاسد کی حکومت کو تعاون فراہم کرے گا۔ اس طرح شام میں خانہ جنگی طویل اور مزید مشکل ہو سکتی ہے ۔دہشت گردی کے فروغ کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ اس حوالے سے مختلف ممالک اپنے اپنے سیاسی اور ریجنل مفادات کے مطابق حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح مختلف ملکوں کی متصادم پالیسیوں کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوتا ہے ، القاعدہ جیسی تنظیمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر شام میں امریکہ دشمن دہشت گرد گروہ مستحکم ہوں گے تو روس کو ان سے خاص تعرض نہیں ہو گا۔ اسی طرح چیچنیا اور سابقہ سوویت یونین کی دیگر ریاستوں میں رونما ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک لاتعلقی کا اظہار کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ نئی صورتحال عالمی دہشت گرد تنظیموں کے لئے نئے امکانات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ انتہا پسند دہشت گرد تنظیمیں عالمی تہذیب اور تمام حکومتوں کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ان میں باہم اشتراک اور مواصلت بھی موجود ہے۔ لیکن ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف ممالک اور طاقتیں ایک پالیسی پر متفق نظر نہیں آتیں۔ یہی رویہ ان گروہوں کی اصل طاقت بن رہا ہے۔