تحریر : قادر خان یوسف زئی سوویت یونین کے جی بی کے سابق جاسوس اور روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پوٹن اس وقت عالمی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں ۔ولادیمیر پوٹن 18 مارچ کو صدارتی انتخابات میں چوتھی بارمتوقع طور پر صدر منتخب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت روسی عوام کو خدشہ ہے کہ اگر ولادیمیر پوٹن صدر نہیں رہے تو روس 90کی دہائی میں دوبارہ جا سکتا ہے۔ دوسری جانب عالمی منظر نامے میں طاقت کے میزانیہ میں عالمی قوتوں کے حوالے سے دو بلاک فطری طور پر وجود پا رہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ اور دوسری جانب روس اور چین ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے عالمی نقشے پر نمودار ہوا۔ لیکن اپنی غیر جانبداری کو برقرار نہیں رکھ سکا اور شتر بے مہار کی طرح بھاگتا رہا اور اپنی پالیسیوں کوجبراََ مسلط کرنے کی روش کو اپنا لیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کا نیو ورلڈ آرڈر عالمی افق میں توازن کے بگاڑ کا سبب بن چکا تھا۔
روس کو اپنی سابقا حیثیت کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے ایک جانب بد ترین معاشی صورتحال سے باہر نکلنا تھا تو دوسری جانب امریکا کی قوت کو دوبارہ چیلنج کرنا بھی مقصود تھا۔ روس کے عالمی منظر نامے میں بنیادی کردار سے امریکی بلاک میں بے چینی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ امریکا اور روس کے درمیان سفارتی جنگ میں شدت بڑھتی چلی گئی اور جوہری طاقت کے مظاہرے و اعلانات نے عالمی منظر نامے میں تبدیلی کے لئے اشارے دینا شروع کردیئے۔ اسی دوران برطانیہ نے 23سفارتکاروں کو ملک بدر کرکے روس کے ساتھ باقاعدہ سفارتی جنگ کا آغاز کردیا ۔اس سے قبل1971میں سرد جنگ کے بام عروج کے وقت بھی برطانیہ نے روسی سفارتکاروں کی بڑی تعداد کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک بدر کردیا تھا ۔47برس بعد حالیہ تنازعہ برطانیہ کے ڈبل ایجنٹ روسی نژاد برطانوی چہری سرگئی اسکری پال اور ان کی بیٹی پر اعصابی زہریلی گیس سے مبینہ حملے کے بعد شروع ہوا جس میں برطانیہ نے براہ راست روس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے مہلت دی تھی کہ روس، سوویت یونین کے دور کی زہریلی گیس کے استعمال و تصرف کے بارے میں فوری وضاحت کرے لیکن روس نے برطانیہ کے سخت ردعمل پر اظہار کرتے ہوئے الزام کو مسترد کردیا ہے کہ سوویت یونین کے دور کی زہریلی گیس استعمال کرنے کے دعوے میں کوئی حقیقت نہیں ، روس نے برطانیہ سے مبینہ حملے میں استعمال ہونے والی زہریلی گیس کا نمونہ بھی مانگا تھا لیکن برطانیہ کی جانب سے روس کے بیانیہ کو اپنی خود مختاری و سلامتی کے منافی اقدام و استہزا سمجھا گیا۔ برطانیہ نے جہاں 47برس بعد پھر ایک بڑی تعداد میں روسی سفارتکاروں کو ملک بد ر کیا تو دوسری جانب برطانیہ میں موجود روسی شہریوں پر پابندیوں اوراکائونٹس منجمد کرنے پر بھی غور کا عندیہ دیا ہے۔
فرانس نے بھی برطانیہ کی ہمنوائی میں روس کے خلاف اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ابھی واضح نہیں ہے کہ فرانسسی صدر عمانویل ماکروں روس کے خلاف کیا اقدامات کریں گے ۔ کیونکہ اس وقت روس میں صدارتی انتخابات کا ماحول گرم ہے ۔فوری جوابی اقدام کا براہ راست اثر روسی صدارتی انتخابات پر پڑ رہا ہے ۔ جس سے نمایاں طور ولادیمیر پوٹن کو فائدہ ملے گا۔بتایا جارہا ہے کہ ولادیمیر پوٹن با آسانی صدر منتخب ہوجائیں گے کیونکہ اس وقت روس کے علاوہ امریکا کے طوق غلامی میں پھنسے ممالک ولادیمیر پوٹن کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ ڈبل ایجنٹ پر مبینہ حملے کے بعد روسی وزیر خارجہ ر سرگئی لاروف کا دورہ برطانیہ بھی منسوخ ہوگیا اور اب روس کی جانب سے جوابی ردعمل سے عالمی حالات کتنے متاثر ہونگے یہ آنے والا وقت مزید ظاہر کردے گا ۔واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے روس پر پابندیوں کے جواب میںروسی صدر نے گذشتہ برس امریکی سفارتی عملے کے 755 ارکان کو ملک چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ا مریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کام کر رہے تھے اور 775 لوگوں کو روس میں اپنی لازمی اپنی سرگرمیاں ترک کرنا ہوں گی۔سفارت کاروں کی بیدخلی کی روش میں برطانیہ کی جانب سے سفارت کاروں کو ملک بدری کے حکم نامے میں جواز کے مطابق اس عمل سے روس کے جاسوسی نیٹ ورک کو توڑنے میں مدد ملے گی۔
عالمی منظر نامے میں صدر ٹرمپ نے اپنے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کو برطرف کرتے ہوئے کانگریس کے سابق رکن ، ہاروڈ کے لا ء گریجویٹ اور امریکی فوج کے سابق افسر سابق افسر مائک پومپیو کو نیا وزیر خارجہ نامزد کیا ہے۔ سخت گیر پالیسیوں کی حامی مائک پومپیو 1991ء میں کویت کی آزادی کی جنگ میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور صدر ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کے حامی ہونے کے سبب ان کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔صدر ٹرمپ نے مائک پومپیو کی جگہ جینا ہاسپل کو سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی نئی سربراہ مقرر کیا ہے۔جینا ہاسپل اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی۔ وہ سی آئی اے کی ایک تجربے کار افسر ہیں اور اس وقت وہ اس کی ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہی ہیں۔ریکس ٹیلرسن ٹرمپ انتظامیہ کے دسویں ایسے عہدے دار ہیں جنھوں نے استعفیٰ دیا یا انہیں برطرف کردیا گیا ۔صدر ٹرمپ اور ریکس ٹیلرسن کے درمیان اختلافات انٹرنیشنل میڈیا میں سامنے آچکے ہیں۔ خاص طور پر ریکس ٹلرسن کی جانب سے امریکی صدر کی نئی پالیسیوں پر مزاحمتی کردار موضوع بحث رہا ہے۔ریکس ٹلرسن ایران پر عاید پابندیوں کی کمی لانے کے حامی رہے ہیں ۔ اسی طرح شمالی کوریا سے امریکی صدر سے مذاکرات کے حامی اور قطر کے خلاف چار ملکی اتحاد کی ناکا بندی کو ختم کرانے کی ضرورت پر بھی زور دیتے رہے ہیں۔عالمی منظر نامے میں چین بھی ایک معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور روس کی عسکری طاقت کے ساتھ نئے معاشی بلاک نے امریکا اورتحادیوں کو پریشان کررکھا ہے۔امریکا واضح کرچکا ہے کہ اس کے لئے اس وقت سب سے بڑا خطرہ چین و روس گٹھ جوڑ ہے۔
افغانستان کے سابق صدر حکمت یار بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو افغانستان میں افغان طالبان سے نہیں بلکہ امریکا کے خلاف بننے والے نئے اتحاد سے خطرہ ہے۔اس وقت امریکا اور روس اپنی عسکری طاقت کا عملی مظاہرہ مملکت شام میں کررہے ہیں جس میں دونوں بڑی قوتیں اپنی طاقت کو شامی عوام پر آزما رہی ہیں۔ اس وقت شام میں خون ریز خانہ جنگی کو سات برس مکمل ہوچکے ہیں۔ان سات برسوں میں تقریباََ 5لاکھ شامی جاںبحق ہوچکے ہیں اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تقریباََ ایک کروڑ 30لاکھ ایسی حالت میں ہیں کہ انہیں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔امریکا اور روس کی وجہ سے خانہ جنگی انتہائی پیچیدہ اور خطرناک صورتحال میں داخل ہوچکی ہے۔ روس اس وقت مشرقی غوطہ میں مزاحمت کاروں پر شامی افواج کے ساتھ ملکر ہولناک حملے کررہا ہے تو دوسری جانب امریکا بشار الاسد کے حامی ملیشیائوں پر حملے کررہا ہے ۔ دونوں قوتوں کے حملوں میں نہتے عوام کی بڑی تعداد متاثر ہو رہی ہے ۔ عراق، افغانستان کے بعد شام کی تقسیم کے منصوبے بھی منظر عام پر آچکے ہیں ۔ بدقسمتی سے روس اور امریکا کا ہدف نہتے مسلمان ہیں ۔ اس جنگ میں دونوں جانب سے نقصان صرف مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے اور معصوم بچوں ، خواتین اور بزرگ افراد کے علاوہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بمباریوں اور کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بن رہی ہیں۔
امریکا اور روس کے درمیان طاقت کی اس نئی جنگ میں شدت بڑھتی جا رہی ہے۔روسی صدر پوتن نے نئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا دعویٰ اپنی صدارت کے آخری خطاب کیا تھا ۔سرکاری ٹی وی پر دو ایسے ہتھیار دیکھائے گئے جیسے روسی صدر نے نئے ناقابل تسخیر ہتھیار قرار دیا ۔روسی صدر نے ایٹمی ڈرون بنانے کے علاوہ امریکی دفاعی نظام کو ناکام بنانے کا دعوی بھی کیا تھا۔ روسی صدر کے اس اعلان کے بعد امریکا کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی اور امریکا کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔روس اور امریکا کی جانب سے طاقت کا ایک مظاہرہ اُس وقت بھی سامنے آیا تھا جب امریکا نے ‘ مدرآف آل بمز ‘ افغانستان کی سرزمین پر گرا یا تھا ۔ جس کے جواب میں روس نے ‘ فادر آف آل بمز ‘ کی نمائش کرکے امریکا کی طاقت کو چیلنج کردیا تھا ۔روس اور امریکا کے دفاعی بجٹ و توازن میں بہت نمایاں فرق ہے لیکن اس کے باوجود امریکا اور روس کا مدمقابل آنا پوری دنیا میں طاقت کے نئے میزانئے کو ترتیب دے رہا ہے۔ امریکا عالمی معاشی اداروں کا سہارا لیکر ترقی پذیر ممالک پر دبائو بڑھا تا ہے ۔ ڈالرز کی قدر و قیمت کی بنا پر حکومتوں میں من پسند تبدیلیاں اور مداخلت امریکی پالیسی بن چکی ہے ۔ ڈالرز اور امریکی معاشی دبائو سے آزادی کے لئے پہے پہل ملائیشیا کے صدر مہاتر محمد کی جانب سے اجناس کے ذریعے تجارت اور سونے کو عالمی کرنسی بنانے کی تجویز سامنے آئی تھی لیکن امریکی دبائو کی وجہ سے ڈالرز کے بغیر لین دین کے معاشی منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ پھر ترکی کی جانب سے بھی اپنی اپنی ملکی کرنسی میں باہمی تجارت کا منصوبہ رکھا گیا ۔ چین نے بھی ڈالر کے بجائے ملکی کرنسی میں قرضوں اور تجارت کی پالیسی اپنانے کو زور دیا۔
عالمی تجارتی منڈی میں چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ نے امریکا کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا کیونکہ یہ تجارتی جنگ اسلحے کی خرید و فروخت کے بغیر لڑی جانے ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکا ممالک کے درمیان خانہ جنگی اور تصادم کروا کر اپنے ہتھیاروں اور دفاعی نظام کو فروخت کرنے کا عادی ہے ۔ امریکا کی پالیسیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد مضبوط کی جا رہی ہیں۔ چین امریکا کو ٹھوس موقف دے رہا ہے کہ وہ سرد جنگ کی ذہنیت ترک کرتے ہوئے جوہری اسلحے میں تحفیف کے لئے اپنے ذمے داری نبھائے۔ چین نے یہ اعلان امریکہ کی نئی جوہری پالیسی کے سامنے آنے کے بعد کیا تھا جس میں امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر میں توسیع اور تجدید کا منصوبہ شامل ہے۔چینی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ امریکہ نے چین کے جوہری خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے ہتھیار دفاعی نوعیت کے ہیں۔اس سے قبل روس نے کہا تھا کہ نئی امریکی پالیسی ‘روس مخالف اور تصادم پیدا کرنے والی ہے۔’امریکہ کی نیوکلیر پوسچر ریویو (این پی آر) کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ‘ہماری حکمت عملی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ روس اس بات کو سمجھ جائے کہ جوہری ہتھیار کا کسی بھی قسم کا استعمال، چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو، قابل قبول نہیں۔’چینی وزارت دفاع نے کہا ہے امریکہ نے چین کے جوہری خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے.امریکہ کے نائب وزیر دفاع پیٹرک شینہن نے کہا ہے کہ ان کے ملک کے جوہری ہتھیاورں نے امریکہ کو 70 سال سے زائد عرصے تک محفوظ رکھا ہے۔انھوں نے واشنگٹن میں میڈیا بریفنگ کے دوران کہا تھاکہ ‘وہ اس کے متروک ہو جانے کو برداشت نہیں کر سکتے۔’
امریکا کی جانب سے نئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری و اضافے کے بعد روس کی جانب سے بھی دوگنی طاقت کے ساتھ مظاہرہ کرنے کا اعلان واضح کرتا ہے کہ دنیا ایک بار پھر دو سپر پاور بلاکوں میں منقسم ہونے جا رہی ہے۔ خاص طور پر روس کی جانب سے امریکا کے ہر اُس عمل پر مزاحمت سامنے آتی ہے جس میں امریکا کے مفادات کو ضرب پڑتی ہو۔ امریکا کو مملکت شام میں روس کی وجہ سے ہی مسلسل سات برسوں سے ناکامیوں کا سامنا ہے ۔ امریکا افغانستان میں جنوبی ایشیا کے لئے نئی فوجی چھائونی بنانا چاہتا ہے لیکن روس اس کے مقاصد کے سامنے حائل ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ اب امریکا ذہنی طور پر جنگ ہار چکا ہے اور مزاحمتی گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے روسی مداخلت کا راستہ روکا جا سکے ۔امریکا نے عرب ممالک میں بھی جنگ کا خوفناک ہوّا چھوڑا اور عرب کے وسائل اپنے جنگی ہتھیاروں کی فروخت کے لئے حاصل کئے۔ لیکن دوسری جانب روس نے بھی عرب ممالک میں دفاعی نظام کی فراہمی کے ساتھ ساتھ امریکا سے زیادہ جدیدہتھیار فراہم کرنے کے معاہدے کرکے امریکا کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ، دنیا بھر میں امریکی مفادات کو مسلسل ضرب لگ رہی ہے اور امریکا مخالف بلاک بتدریج مدمقابل آتا جارہا ہے۔ امریکا کی جانب سے جنوبی کوریا پر شمالی کوریا کی جانب سے حملے کا ہوّابھی پگھل رہا ہے۔ شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی جنگ کا خطرہ بھی امریکا برداشت نہیں کرسکا اور اب مذاکرات کا خواہاں ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ چین اور روس نے جنوبی کوریا کی امن کوششوں کے منصوبے کو سراہے جانا تھاجس سے ماسکو ، بیجنگ اور سیئول میں باہمی تعلقات میں خوشگوار تبدیلی کو دنیا بھر میں محسوس کیا گیا ۔شمالی کوریا نے بھی جنوبی کوریا کے خصوصی سفیروں کی جانب سے روس و چین کے دوروں پر خاموشی رکھی۔ جو اس بات کا آئینہ دار ہے کہ شمالی کوریا (جو کہ چین کا بڑا تجارتی اسٹریجک پارٹنر ہے ) بھی نئے بلاک کی تشکیل میں چین اور روس کی مدد کرنا چاہتا ہے ۔ روس اور امریکا کے دونوں بلاک خطے میں نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ماضی میں دوست ممالک اب اپنی خارجہ پالیسیوں کو تبدیل کررہے ہیں اور زمینی حقائق کے مطابق دنیا میں طاقت کے توازن میں برابری کی سطح پر اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ امریکا ایک جانب جہاں اپنے حلیف او اتحادیوں سے دور ہورہا ہے تو دوسری جانب اُن ممالک کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے خطے میں طاقت کا توازن خراب کررہا ہے جن سے ماضی میں کبھی خاص تعلقات نہیں رہے ہیں۔
روسی بلا ک ہو یا امریکی بلاک ، دیکھا یہی گیا ہے کہ عالمی طاقتوں کی درمیان محاذ آرائی سے مسلم ممالک کو ہی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔مسلم ممالک میں خانہ جنگی کے لئے سازگار ماحول میں فرقہ واریت ، نسل پرستی ، لسانیت اور صوبائیت کے اثرات گہرے ہونے کے سبب یہ ممالک جلد عالمی قوتوں کی پراکسی کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ عالمی پراکسی وار میں اتحادی بننے سے انہیں فوائد کم اور نقصانات زیادہ ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ترقی پزیر ممالک کی خارجہ پالیسیاں عالمی قوتوں کے اشاروں پر چلتی ہیں اور خود انحصاری کی پالیسی نہ ہونے کے سبب زیادہ تر کمزور ریاستیں عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں غلام بن جاتی ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں عالمی قوتوں کے درمیان مفاداتی جنگ جاری ہے ۔ چھوٹے ممالک عالمی قوتوں کی سازشوں کا ایندھن بن رہے ہیں ۔ ترقی پزیر ممالک عوام کے فلاح و بہبود کے منصوبوں کو پورے اور غریبی کو دور کرنے کے بجائے ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوکر اپنی عوام کے مصائب میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں ۔ عالمی قوتوں کی سازشوں و ایجنڈوں کا جال دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک میں پھیلا ہوا ہے ۔ بلواسطہ یا بلاواسطہ دنیا کا ہر ملک عالمی طاقتوں کی مستقبل کی منصوبہ بندی کی کڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ۔ کئی ممالک معاشی مسائل میں گرفتار ہیں تو بیشتر ممالک سیاسی مسائل میں ، متعدد ممالک طاقت کے زعم میں ریاستی توسیعی منصوبے پر کاربند ہیں تو کئی ممالک دفاع کے نام پر الجھے ہوئے ہیں ۔ مغرب تا مشرق تمام ممالک عالمی طاقتوں کے گنجلگ شطرنج کے مہرے بنے ہوئے ہیں ۔بد قسمتی سے مسلم ممالک کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لئے متفقہ پلیٹ فارم گروہی مفادات کی وجہ سے غیر موثر ہوچکا ہے۔ سلامتی کونسل کی مستقل نشست میں کوئی مسلم ملک شامل نہیں ، طاقت کے لئے عسکری قوت و سازو سامان کی کمی مسلم امہ کی کمزوری کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
خانہ جنگیوں میں مہیا وسائل جھونکنے سے مسلم ممالک مزید ابتری کا شکار ہو رہے ہیں۔عوام غربت کی سطح سے مزید گرتے جا رہے ہیں اور امرا ء مزید طاقت ور ہورہے ہیں۔مسلم ممالک کو انتہا پسند و دہشت گردی کی پہچان مل رہی ہے تومغربی بلاک مسلمانوں پر اپنے ممالک میںداخلوں پر پابندی پر پابندی عائد کررہا ہے۔ اگر عالمی قوتوں کا تصور موجود بھی ہے تو اس وقت کسی واحد مسلم طاقت نظر نہیں آتی جو دنیا بھر میں مسلم امہ کے مسائل کو حل کرسکتی ہو ۔ اقوام متحدہ عالمی قوتوں کی امداد کے بغیر چل نہیں سکتی اس لئے عالمی قوتوں کے آگے اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آتی ہے ۔ آج کی اقوام متحدہ عضو معطل بن کر رہ گئی ہے ۔ جس میں اگر امریکا کے خلاف پوری دنیا ایک جانب بھی کھڑی ہوجائے تو امریکا کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔عالمی ماحولیاتی آلودگی معاہدے سے علیحدگی ہو اور امریکی سفارت خانے کی فلسطین سے منتقلی کا معاملہ ۔امریکا ہٹ دھرمی میں اس قدر بے باک ہے کہ اقوام متحدہ خاموش ہے۔ شام میں روس کی جانب سے بھیانک بمباری ہو تو بھی اقوام متحدہ کی بے حسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ لیکن جب برطانیہ کے ایک ڈبل ایجنٹ پر حملے کا واقعہ رونما ہوجائے تو ایک ایجنٹ کے لئے روس کے 23سفارت کاروں کو یکدم نکال ہی نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے ساتھ دینے کے لئے فرانس بھی کندھا سے کندھا ملا لیتا ہے۔مسلم اکثریتی ممالک کو مستقبل کے مجوزہ نقشے میں اپنی جگہ بنانے کے لئے متفقہ لائحہ عمل کو اپنانا ہوگا ۔ اگر عالمی طاقتوں کی جنگ میں چارہ بنتے رہے تو مسلم اکثریتی ممالک سمیت ترقی پذیر ممالک کی گردنوں سے طوق غلامی کبھی نہیں نکل سکے گا ۔ دنیا اس وقت عالمی قوتوں کی صف بندیوں کے نئے دور سے گذر رہی ہے ۔ سرد جنگ کے بعد جوہری ہتھیاروں میں اضافے اور کیمیائی مواد کے استعمال و عدم برداشت کی روش نے پوری دنیا کی سلامتی و بقا کو خطرے سے دوچار کردیا ہے ۔ عالمی قوتوں کا اپنا دفاعی نظام بھی محفوظ نہیں رہا ہے ۔ نئے عالمی منظر نامے میں ایسے دائرے کی ضرورت ہے جس میں انسانیت کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا جائے۔طاقت کا بے جا استعمال دنیا کو آناََ فاناََ تباہ کر سکتا ہے۔