عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موذی امراض میں جس سرعت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے وہ لمحہ فکریہ سے کم نہیںکیونکہ ایک اندازے کے مطابق فضائی آلودگی سے دنیا بھر میں سالانہ70لاکھ سے زائد افرادموت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ موسم کی شدت اور مچھر سے جنم لینے والی بیماریاں پوری دنیا میں عام ہو چکی ہیںلیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ گرمی میں اضافے کا سبب بننے والی کاربن گیسوں کا اخراج کم کر کے سالانہ لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے صحت پر پڑنے والے اثرات 21 ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ اس کی روک تھام کے لئے عالمی سطح پر صرف ایک فیصد رقم خرچ کی جارہی ہے ۔ 80ء کی دہائی میں سائنسدانوں نے اس امر کا عتراف کیا تھا کہ فریج، ایئرکنڈیشنڈ اور صنعتوں سے خارج ہونے والی کاربن اورگرین گیسز جہاں” اوزون’ ‘کی سطح کو نقصان پہنچا رہی ہیں وہیں زمین کا درجہ حرارت بھی خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ 2003ء میں یورپی ممالک کا جب درجہ حرارت بڑھا تو 70 ہزار لوگلقمہ اجل بن گئے ، روس میں 2010ء کے دوران گرمی نے 50 ہزار لوگوں کی جان لے لی تھی۔
امریکی نائب صدر الگور ماحولیاتی آلودگی پر اپنی کتاب ”Inconvenient truth AN ”میںلکھتے ہیں کہ امریکہ میں 2000ء کے انتخابات کے دوران ”گلوبل وارمنگ’ ‘کا مسئلہ انتخابی مہم کا نمایاں ترین مسئلہ بن گیا تھا لہٰذا بش نے بھی اس مسئلے کو اہمیت دی مگر فتح حاصل کرنے کے بعد انہوں نے یو ٹرن لے لیا اورکہا کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں جب لوگوں نے ماحولیاتی آلودگی پر شور مچایا تو امریکی صدر بش نے کہا کہ یہ معیشت کے لئے بہتر ہے اور یہ کہ سائنس کا علم غیر قطعی ہے لہٰذا اس کے پیش کردہ حقائق پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے اپنی کتاب میں مزید لکھا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں میں امریکہ کا 30 سے زائد جبکہ یورپ 27 اورروس کا 13 فیصد سے زائد حصہ ہے۔یاد رہے کہ 1999ء کے بعد سے دنیا میں سبزہ ، ہریالی کی مقدار 59 فیصدکم ہوئی ہے،.50کے لگ بھگ ایسے ممالک ہیںجہاں پینے کیلئے پانی کا بدترین قحط ہے جس میں بھارت بھی شامل ہے ،المیہ یہ ہے کہ دنیا کا 98 فیصد خطہ آلودہ ہوچکا ہے جہاں صاف ہوا اور پانی بھی میسر نہیں۔
جدید صنعتی وسائنسی ترقی اپنی جگہ لیکن اگر اس سے پیدا ہونے والی حرارت پر قابو نہ پایا گیا تو دنیا کا کوئی بھی ملک خواہ وہ کتنا بھی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو وہ موسم کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گا کیونکہ وہاں خوراک کی قیمتیں بڑھیں گی، فاقہ کشی بڑھے گی، فصلیں کم ہوں گی، مکئی، چاول اورگندم کی فصل بڑے پیمانے پر متاثر ہوں گی، سیلاب اور سمندری طوفان آئیں گے۔ماحولیاتی آلودگی کے سبب اس وقت پوری دنیا تشویش اور اضطراب میں مبتلاہے کیونکہ گرین ہائوس گیسز کے اخراج کی روز افزوں بڑھتی ہوئی مقدار کے باعث ان دنوں پانی، ہوا اور درجہ حرارت جیسے گونا گوں ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔فضامیں اس وقت 31 فیصد کے لگ بھگ کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مہلک گیسیں موجود ہیں۔ماہرین کے مطابق 2100ء تک سمندر کا لیول 9سے100سینٹی میٹر تک بڑھ جائے گا جس سے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔فضائی آلودگی دنیا بھر میں مرنے والے ہر آٹھویں فرد کی موت کی وجہ بنی ہوئی ہے اوردنیا بھر میں ہر سال کم و بیش 70لاکھ جبکہ پاکستان میں 59ہزار کے لگ بھگ اموات فضائی آلودگی سے ہوتی ہیں۔
آب و ہوا میں تبدیلی اور آلودگی کی وجہ سے دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں بھی کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے، مختلف صنعتوں اور ٹرانسپورٹ سے خارج والے نائٹروجن اور کاربن کے مرکبات کے اخراج سے بھی فضائی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ایک جائزے کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے سبب ہونے والی کل اموات میں سے نصف سے زائد صرف 2 ممالک یعنی بھارت اور چین میں ہوتی ہیں کیونکہ بھارت اور چین میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ قبل ازیں ماحولیاتی آلودگی پرقابو پانے کیلئے عالمی سطح پر کئی معاہدے ہو ئے لیکن ان پر عملدرآمدنہ ہو سکا ۔ 1987ء میں مانٹریال میں اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کیلئے معاہدہ کیا گیاتھا۔ 1990ء اور 1992ء میں اسے مؤثر اور کارگر بنانے کیلئے عالمی سطح پر بڑے اجلاس بلائے گئے ۔ 1992ء میں اقوام متحدہ کے آب و ہوا کی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن میں گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کیلئے مختلف تجاویز زیربحث لائی گئیں۔
اقوام متحدہ کے جاپان میں ہونیوالے آب و ہوا کی تبدیلی کے تیسرے فریم ورک کنونشن میں 160 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت متعین کردہ اہداف میں اس ایجنڈے کو فوقیت دی گئی کہ گرین ہاؤس گیسیں جو کہ گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہیں ان کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے گا لیکن فروری 2005ء سے اس معاہدے کو جب عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو امریکہ نے اس کی توثیق سے انکار کر دیاتھا۔کاربن کا اخراج کرنے والے سب سے بڑے ملک چین نے 2024ء جبکہ امریکہ نے 2019ء سے اس پر عملدرآمد کا عندیہ دیا تھااس کے علاوہ 2020ء تک چین نے کوئلے کی پیداوار میں 500 ملین ٹن کمی لانے کا ہدف رکھا ہوا ہے۔
چین نے اپنے پاور سیکٹر میں فضائی آلودگی کا سبب بننے والے ذرائع سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 60 فیصد تک کمی لانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں گرین ہائوسز گیسز کا سالانہ اخراج 40 کروڑ 50 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔پاکستان، بھارت اور بعض خلیجی ریاستوں نے 2028ء تک مہلت مانگی ہے ۔ اگرچہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں پر پڑتا ہے لیکن ان تبدیلیوں کا زیادہ تر سامنا ترقی پذیر ممالک کو کرنا پڑتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک ترقی اور کاروبار کی وجہ سے ا س طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔