تحریر: شاہد شکیل ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ کئی ترقی یافتہ ریاستوں میں بھی انسان اپنے مفاد کی خاطر زندگی کو داؤ پر لگاتے ہیں اور محض چند سِکوں کی خاطر آنے والی کئی نسلوں کو تباہی کے دھانے کھڑا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے حالانکہ کئی ممالک کی حکومتیں ،قوانین اور میڈیا اپنے فرائض ذمہ داری سے نبھاتے ہوئے ممکنہ طور پر مستقبل میں رونما ہونے والی ہر قسم کی قدرتی آفات سے تفصیلاً آگاہ بھی کرتے ہیں لیکن افسوس اس انتباہ اور وارننگ کے باوجود کسی کے سر سے جوں تک نہیں رینگتی اور ہر کوئی اپنی زبان میں یہی کہتا ہے ہمیں کیا لینا دینا ،یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ،کوئی مرتا ہے تو مرے، جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
اللہ رحم کرے گا وغیرہ۔ گلوبل وارمنگ آج دنیا میں ایسا خطرناک مسئلہ بن گیا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے چند برسوں میں مزید دس یا پندرہ سینٹی گریڈ کے اضافے سے مہلک ترین نتائج ظاہر ہونگے اور کئی ممالک میں لاکھوں افراد کی اموات کا خدشہ ہے۔ورلڈ کلائی میٹ چینج کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں پینتیس اور چالیس بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کے فضا میں پھیل جانے سے کروڑوں افراد متاثر ہوئے،مختلف اقسام کی زہریلی گیسوں نے چار سو پی پی ایم (پارٹس پَر میلین) نے ماحولیاتی نظام میں شدید خلل ڈالا جس میں انڈسٹریل اور گھریلو ایندھن اور مختلف اقسام کی غلاظت سر فہرست ہیں اور اس سال اپریل میں مزید اضافہ ہونے سے پی پی ایم چار سو سے چار سو آٹھ تک پہنچ چکی ہے ،ماہرین کا کہنا ہے اگر اسی رفتار سے گیسوں کا اخراج جاری رہا تو کنٹرول کرنا دشوار ہو جائے گا۔
Marine environment
امریکی ادارے این او اے اے کے انڈیکس کے مطابق سمندری ماحول میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور فضا کا غلط سمت رحجان ہے۔ میتھن ( جانوروں کے فضلے سے پیدا ہونے والی گیس ) میں بے انتہا اضافہ اور اخراج ہونے سے گزشتہ برس اس کا شمار چوٹی پر تھا۔ ان تمام اعداد و شمار سے ماہرین متفکر ہیں اور متفقہ طور پر کہنا ہے کہ امریکا کا ان تمام عوامل میں اہم کردار ہے،میتھن کے اس قدر اخراج میں ساٹھ فیصد اضافہ ہونے کے علاوہ تیل کی پیدا وار اور گیسوں کی لیکج وغیرہ وجوہات ہیں کیونکہ تیل اور گیسوں کی امپورٹ ایکسپورٹ ،پائپوں میں سوراخ ہونے سے بھی کافی حد تک کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہوا اور انہیں وجوہات سے گلوبل وارمنگ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو جان لیوا ہے۔این او اے اے کے موسمیاتی اور ماحولیاتی انڈیکس کے مطابق گیسوں کی پیمائش کا آغاز انیس سو اناسی میں کیا گیا اور اس وقت پی پی ایم ایک پوائنٹ پانچ تھا رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہوا اور اسی سے نوے کی دہائی میں دو پی پی ایم تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ دو ہزار پندرہ میں تین سو سے زائد ہوگیا ، رپورٹ کے مطابق امریکاکی کئی سٹیٹ میں چار سو سے زائد ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ریسرچ ڈائریکٹر جیمز بٹلر کا کہنا ہے موسم کو تبدیل کرنے میں انسانوں کا کافی عمل دخل ہے ہم سب اس زمین کے تھرموسٹیٹ کو اپنے مفاد کی خاطر جب چاہے توڑ موڑ رہے ہیں جس کے نتیجے میں موسم ہر روز اپنے رنگ بدل رہا ہے موجودہ دور میں موسم کی تبدیلی اور درجہ حرارت میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اس کا موازنہ ہزاروں سال پہلے کے موسم سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جس دن سے دنیا بھر میں کوئلے،گیس اور انڈسٹری کا وجود عمل میں آیا ہے اس وقت سے تبدیلی تیزی سے جاری ہے۔جی آئی ایس ایس(گوڈارڈ انسٹیٹیوٹ فار سپیس سٹڈیز) کے مطابق دوہزار سولہ گرم ترین سال ہو گااور اسی سال سے درجہ حرارت میں مزید اضافے سے آنے والے برسوں میں زمین مزید گرم ہو گی۔
Climate Change
ناسا کے ڈائریکٹر چارلس بولڈن کا کہنا ہے موسمیاتی تبدیلی آج کی جنریشن کیلئے اہم چیلنج ہے اور موسمیاتی پیمائش و تبدیلی کی پیش نظر دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اب متحرک ہونا پڑے گا تاکہ انسانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ایک مطالعے میں بتایا گیا کہ آنے والے پچاس برسوں میں دنیا بھر اور خاص طور پر خلیج فارس شدید متاثر ہوگا گیسوں کے اخراج سے کوئی ذی روح گرمی برداشت نہیں کر سکے گا خطے رہائش کے قابل نہ ہونے کی صورت میں اموات واقع ہونگی۔ مثلاً ایران، دوبئی ، دوحہ،ابو ظہبی اور سعودی عرب کے علاوہ ہمسایہ ممالک میں اس قدر شدید گرمی ہو گی کہ چھ گھنٹے کا درجہ حرارت چوہتر سے اٹھتر سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا ،تیل سے مالا مال ممالک میں تباہی پھیل جانے کا خدشہ ہے جیسے آتش فشاں پہاڑ سے لاوہ اگلتا ہے ممکنہ طور پر ریت سے بھی تیل اور گیسوں کا لاوہ نکل سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے جس قدر ممکن ہو گیسوں کے استعمال میں کمی کی جائے وہ گیس گھریلو ہو یا صنعتی تاکہ دنیا بھر میں درجہ حرارت میں کمی واقع ہو نہیں تو زمین گرمی برداشت نہیں کر پائے گی اور ہر سو تباہی پھیل سکتی ہے ۔ کالم تحریر کرتے ہوئے اچانک ذہن میں آیا کہ آج سے تقریباً پینتیس اور چالیس سال قبل پاکستان میں مئی کے ماہ تک موسم بہار کی بہاریں تھیں جبکہ موجودہ دور میں مارچ کے اوائل سے ہی گرمی کی تپش چودہ طبق روشن کر دیتی ہے، قریبی دوست سے فون پر بات ہوئی حال احوال کے بعدانہوں نے انتہائی حیران کن خبر سے بھی آگاہ کیا کہ آج اٹک سٹی کا درجہ حرارت اکیاون سینٹی گریڈ رہا،یہ سن کر محقیقین کے اوپر بیان کردہ مطالعے پر کوئی شکوک و شبہات باقی نہیں رہے کیونکہ اگر آج سے چالیس سال قبل موسم ایسا نہ تھا جیسا آج ہے تو آنے والے چالیس سالوں میں کیسا ہو سکتا ہے؟۔