تحریر: آصف خورشید رانا : اسلام آباد امریکہ کے سب سے بڑے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیٹوٹ نے پاکستان بھارت اور خطے کے متعلق ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت پاکستان میں متعدد دہشتگردوں کی سرپرستی کرتا ہے اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں ملوث ہے، اس رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ بھارت کا ایٹمی پروگرام دنیا کے تمام ممالک کی نسبت سب سے ذیادہ غیر محفوظ ہے۔ اسی رپورٹ میں بھارت کا کشمیر پر جبری تسلط بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہیں جب پاک بھارت تنائو، جنوبی ایشیا میں امن اور بھارت میں داعش کی موجودگی کے حوالہ سے اہم پیش رفت سامنے آ رہی ہیں۔ ابھی دو دن پہلے لکھنو میں داعش کے خراسان کے ساتھ تعلق رکھنے والے گروہ کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔ اسی طرح کچھ دن پہلے بھارتی ریاست کرناٹک میں انتہا پسند تنظیم داعش کا ٹوئٹراکاؤنٹ چلانے کے الزام میں ایک نوجوان کو گرفتارکیا گیا تھا۔یہ نوجوان جس کانام مہدی تھا بنگلورو کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہے اور انٹرنیٹ پر داعش سے متعلق معلومات اورتصاویرجمع کرکے ویب سائٹ پراپ لوڈ کرتا تھا۔
ابتدائی تحقیقات میں پولیس مہدی کا براہ راست داعش سے تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہی تاہم غیرملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ داعش کا اکاؤنٹ اس کے ارکان کے درمیان اہم ذریعہ تھا جواب بند کردیا گیا ہے۔گزشتہ ماہ بھارتی بھارتی تفتیشی ایجنسی نے انکشاف کیا تھا کہ کیرالہ کے 22 نوجوانوں (جو چند ماہ قبل لاپتہ ہوگئے تھے) نے افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کرلی ہے جو اب داعش کے مراکزمیں تربیت حاصل کررہے ہیں۔اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ داعش بھار ت میں اپنے قدم جما رہی ہے ۔بھارت کے ساتھ افغانستان کے دوستانہ تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں موجود داعش بھارت میں انتہا پسند نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہے۔ بھارتی فوج کی بڑی تعداد کشمیر اور پاکستان کی سرحدوں پر موجود ہے اور خفیہ ایجنسیوں کی تمام تر نظر پاکستان میں پراکسی وار لڑنے یا بھارت میں مسلم سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف کام کرنے پر ہے اس لیے داعش کے خطرے سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے۔
بھارت کے ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے بھی اس سے قبل بھی ایسے کئی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں کہ بھارتی ایٹمی پروگرام دنیا کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں اور اس سے جنوبی ایشیا کا خطہ بالخصوص متاثر ہوگا ۔گزشتہ سال بیلفرسینٹر برائے سائنس و بین الاقوامی امور ہارورڈ کینیڈی اسکول نے بھی ایسی ہی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اس کے غیر محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ کہا گیا تھا کہ چونکہ بھارت نے امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدوں میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیںجبکہ ناقص سیکورٹی انتظامات کے باعث بھارت کے ایٹمی ہتھیار چوری ہونے کا شدید خطرہ ہے۔اس لیے پروگرام کو بین الاقوامی نگرانی میںدیا جائے ۔ اسی رپورٹ میں ان مظاہروں کا بھی ذکر کیا گیا جو ایٹمی پروگرام کے خلاف بھارت میں کیے گئے کیونکہ بھارت کی جانب سے تابکاری مواد دریا میں پھینکنے سے متعدد ہلاکتیں ہوئیں تھیں اور اس وجہ سے گلوبل وارمنگ میں بھی اضافہ ہوا۔
دوسری طرف پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سیکورٹی بھارت کے مقابلے میں کئی گنا ذیاد ہ محفوظ ہے ۔ بھارت کے تھرمو نیو کلئیر سٹی کی تعمیر پر بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا گیا تھا کہ اس سے خطے میں ہتھیاروں کے حصول کی نئی دوڑ شروع ہو جائے گی ۔بھارت کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک دلچسپ رپورٹ بھارت کے اپنے بڑے میڈیا گروپ ”ٹائمز آف انڈیا ” کی ہے جس کے مطابق بھارت کے چوٹی کے نیو کلیئر سائنسدان یکے بعد دیگرے پراسرار موت کا شکار ہو رہے ہیں اور بھارتی حکام اور میڈیا اس عجیب و غریب صورتحال کی مسلسل پردہ پوشی کررہے ہیں۔ اخبار کے مطابق 2009ء میں کائیگا اٹامک پاور سٹیشن پر کام کرنے والے 48 سالہ سائنسدان لوکا ناتھن مہالنگم صبح کی سیر کے لئے گئے اور لاپتہ ہو گئے، 5دن بعد دریائے کالی سے ان کی لاش ملی۔ اس واقع سے چند دن پہلے نیوکلیئر پاور کارپوریشن کے سائنسدان روی میول ایک جنگل میں مردہ پائے گئے۔ 2010ء میں نیوکلیئر انجینئر ایم آئر اپنی رہائش گاہ میں مردہ پائے گئے۔ 2011ء میں سائنسدان اوما راھ کی پراسرار موت واقع ہوئی۔ اسی طرح بھارت کے بیلسٹک سبمرین پراجیکٹ آئی این ایس اریہانت پر کام کرنے والے دو سائنسدان کے کے جوش اور ابھیش شوم ایک ریلوے لائن پر مردہ پائے گئے۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ بھارت کے جوہری سائنسدانوں کی پراسرار موت کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ 1966ء میں بھارتی جوہری پروگرام کے خالق ہومی جہانگیر بھابھا ایک طیارہ حادثے میں موت کا شکار ہوئے اور ان کی موت کے بارے میں بھی طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں۔ بھارتی حکام کی طرف سے ان اموات کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا اور جب ذرائع نے معلومات کے حصول کی کوشش کی تو یہ تاثر دیا گیا کہ تمام اموات خود کشی یا حادثات کا نتیجہ تھیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ کئی سال کے دوران بھارت کے دفاعی شعبے سے منسلک اہم ترین سائنسدانوں کی پراسرار اموات پر ماضی کی طرح اب بھی پردے پڑے ہوئے ہیں، جبکہ پاکستان کے خلاف ہمہ وقت زہریلا پراپیگنڈا کرنے والا بھارتی میڈیا اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
یہ تمام رپورٹ کی تفصیل دینے کا مقصد پاکستان کے سابق قومی سلامتی کے مشیر محمود درانی کے ان متنازعہ بیانات کی حقیقت کو واضح کرنا ہے جو بھارت میں انیسویں ایشین سیکورٹی کانفرنس میں انہوں نے دیے ۔محمود درانی نے اس موقع پر ممبئی حملوں کو بارڈر پار سے دہشت گردی کی معیاری مثال قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ حملے پاکستانی گروپ نے کیے تھے ۔ سابق مشیر نے یہ واضح نہیں کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے ، گجرات حیدر آباد میں مسلمانوں کا قتل عام ، مالیگائوں میں بم دھماکے سمیت بھارت انتہا پسندوں کی جانب سے کیے گئے بم دھماکوں اور بالخصوص داعش کی بھارت سے موجودگی ، بھارت کی کمپنیوں کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں موجود داعش کے گروپوں کے ساتھ بارودی مواد کی تجارت اور پاکستان میں بھارتی ایجنسیوں کی موجودگی ، دہشت گر گروہوں کی فنڈنگ اور کشمیر میں ریاستی دہشت گردی، ایٹمی ہتھیاروں کے بعد ہائڈروجن بم کی تیاری جیسے اقدامات ایشیا میں کس طرح امن کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں۔ محمود درانی جیسے لوگوں کے ہاتھ کرپشن میں رنگے ہوئے ہیں ، جنرل ضیاء الحق شہید کو سی ون تھرٹی طیارے میںمتعد کالیں کر کے سفر کے لیے راضی کرنے والے بھی محمود درانی ہی تھے اور آموں کی پیٹیاں اور ٹینک کا ایک ماڈل رکھوانے میں بھی مبینہ طور پر محمود درانی کا ہی ہاتھ تھا۔
اس لیے ان کا یہ بیان اپنے کردار کے حوالے سے کوئی نیا نہیں ہے ۔تاہم اس وقت دنیا بھارت کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پریشان ہے ایشیا میں اسلحہ کی دوڑ اورپھر غیر محفوظ ایٹمی پروگرام کا موجد بھارت ہی ہے یہی نہیں بلکہ ایشیا کے امن کو پراکسی وار سے تباہ کرنے کا آغاز کا سہرا بھی بھارت کے سر پر ہے ۔ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی بنیاد بھی بھارت نے ہی رکھی جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں ایک نیوکلئیر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔مشرقی پاکستان میں بھارتی مکتی باہنی کے وجود کا اقرار تو خود مودی عالمی میڈیا کی موجودگی میں کرچکے ہیں البتہ بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں مداخلت کا اعلان بھی نریندرا مودی نے کھلے بندوں کیا ہے۔ افغانستان کے ذریعے پاکستان میں پراکسی وار کا سلسلہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ایسے میں محمود درانی جیسی متنازعہ شخصیت کے ایسے بیانات محض بھارت یا پھر اس کے آقا امریکہ سے اپنے ذاتی مفادات سمیٹنے کی غر ض سے تو ہو سکتے ہیں تاہم ایسے بیانات سے ایشیا میں بھارتی اقدامات کے باعث غیر محفوظ سیکورٹی کی صورتحال اور ایٹمی جنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردداعش کے وجود کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔