لندن (جیوڈیسک) خام تیل پر جنگیں اور حکومتوں کے تختے تک الٹ جانا جدید تاریخ کا حصہ ہیں۔ تیل کی قیمتیں بین الاقوامی اقتصادیات میں اتار چڑھاو کا تعین کرتی ہیں۔
بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں ہر طرح کی صورت حال اور تنازعات سے متاثر ہوتی ہیں۔ مگر حالیہ کچھ ماہ میں اس حوالے سے ایک بالکل نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلح تنازعات اور بین الاقوامی مسائل کے باوجود تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد سے زیادہ تک کی کمی آئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں موجودہ کمی کو بھی کچھ روسی حلقے امریکا اور سعودی عرب کی خفیہ ساز بار کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے چین میں بھی تیل کی طلب میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگوں کو اس پر بھی تشویش ہے کہ چین اپنی اقتصادیات کو ایک نئی جہت دے رہا ہے اور اب وہاں برآمدت کی بجائے اندرونی کھپت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ممکنہ طور پر یہی وجہ ہے کہ وہاں تیل کی طلب میں کمی پیدا ہو رہی ہے۔ امریکا بھی اپنے ہاں آنے والے شیل آئل کے انقلاب کی وجہ سے بیرون ممالک سے تیل کی درآمد پر کم انحصار کر رہا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ روس اپنے بجٹ کا 45 فیصد توانائی کی برآمدات سے حاصل کرتا ہے۔ گیس کی قیمتیں بھی تیل سے وابستہ ہیں۔ روس کو اپنا بجٹ متوازن رکھنے کے لیے تیل کی قیمت ہر حال میں سو ڈالر فی بیرل درکار ہے جب کہ اس وقت یہ قیمت تقریبا 85 ڈالر فی بیرل ہے۔
یاد رہے کہ 80 کے عشرے میں امریکا نے تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کروا دی تھی اور اسی کمی کے باعث سابق سوویت یونین دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ کر بالآخر ٹوٹ گیا تھا۔ ایران بھی تیل کی قیمتوں میں موجودہ کمی کے لیے سعودی عرب کو براہِ راست ذمے دار گردانتا ہے۔