تحریر : ابنِ اصغر جدون حضرت امیر معاویہ کی ذات کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں آپ کا شمار کئی جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ آپ حضرت علی کے بعد منصب ِ خلا فت پر آئے۔ اس کے ساتھ آپ کے دور میں کئی فتوحات ہوئیں ۔ اور رقبہ کے لحاظ سے بھی آپ کے دور میں اسلام کا پرچم دور دراز تک لہرایا گیا۔ آپ دورِ حضرت ابو بکر صدیق ، دورِ حضرت عمر ، عثمان اور اس کے ساتھ آپ حضرت علی کے دور میں بھی اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ حضرت امیر معاویہ کے والد ابو سفیان کو از قبل اسلام سے ہی اپنے خاندان میں امتیازی حیثیت حاصل تھی ۔ اور اس کے ساتھ آپ کے والد صاحب اپنی قوم کے سربراہ بھی تھے۔ ایک دفعہ جب آپ نوجوان تھے جب آپ کے والد نے آپ کی طرف دیکھا اور فرمایا ،” میرا بیٹااس لائق ہے کے وہ اپنے خاندان کا سربراہ ہو۔ اُنکی والدہ محترمہ حضرت ہند نے جب سُنا تو فرمایا۔فقط اپنی قوم کا ؟ میں اس کو رئو وں اگر یہ پورے عرب کی قیادت نہ کرئے۔ آپ کے نسب و خاندان کی بات کریں تو آپ کا نام معاویہ تھا اور اس کے ساتھ آپ کی کنیت ابو عبدالرحمٰن تھی۔ آپ کے والدِ محترم کا نام صخر اور کنیت ابو سفیان تھی ۔ اور آپ کے والد عرب اور قبیلہ میں ابو سفیان ہی کے نام سے مشہور تھے۔
والد کی جانب سے سلسلہ نسبیہہے۔ معاویہ بن سفیان بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف اس طرح آپ کا شجر ئہ نسب پانچوں پشت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔والدہ ماجدہ کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے۔ حضرت ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس بن عبد مناف ۔ حضرت امیر معاویہ کی ایک بہن ام المئومنین حضرت حبیبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نکاح میں تھی۔ حضرت امیر معاویہ کے فضائل کی بات کی جائے تو یہ نا چیز اور اُس کا یہ ناقص قلم دونوں لکھنے سے قا صر ہیں صرف چند ایک پر ہی اتفاق کرونگا۔حضرت امیر معاویہ کا شمار عرب میں کئی ایک پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا تھا۔۔ آپ کو کاتب وحی ہونے کا شرف بھی حا صل ہے۔ حضرت امیر معاویہ اُن خطوط کو بھی قلم بند کر تے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھجتے تھے۔ حضرت امیر معاویہ دوسرے نمبر کے کاتب تھے جو ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حا ضر رہتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاویہ کو کا تب بنایا اور ان کے بارے میں فرمایا۔یا اللہ! معاویہ کو حساب و کتاب کا علم دے اور عذاب سے محفوظ فرما۔(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ج ٣٥ ص ٦٤، باب الخلافتہ الملک الخ،تحت دعاء الرسولالمعایتہ) ۔
صحیح بخاری ” باب ماقیل فی قتال الروم” میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مروی ہے۔ ” میری اُمت کا پہلا لشکر جو بحری جہاد کرے گا ،انہوں نے (جنت کو اپنے لئے ) واجب کر دیا ہے”اس بات پر اُمت کا اجماع ہے کہ اس ”اول جبشکے امیر سیدنا امیر معاویہ تھے۔ اس حدیث کے بارے میں حافظ بدارالدین عینی الحنفی فرماتے ہیںمہلب نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت امیر معاویہ کی منقبت ہے کیوںوہی پہلے شخص ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سمندر میںجہاد کیا۔ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت کے آگے ساری دنیا کی دولت ہیچ ہے۔ حضرت امیر معاویہ کو بار بار سعادت میّسرآئی، حضرت ابن عباس ایک مرتبہ کا واقعہ بیان کرتے ہیں” اایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مقص( لوہے کا خاص آلہ) کے ساتھ کاٹے”۔ آپ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ مئو مبارک اور ناخن مبارک بطور تبرک موجود ومحفوظ تھے جسے آپ نے اپنے کفن میں رکھنے کی وصیت کی تھی جو پوری ہوئی۔ ( ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ج ٤ ص ٦٨ ، باب حجتہ الوداع)۔ حضرت عبد الرحمٰن ابی عمیر ہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ” اے اللہ ! معاویہ کو ( لوگوں کے لئے ) ہا دی ، ہدایات یافتہ فرما اور ان کے ذریعے دوسروں کو ہدایت عطا فرما ۔ حضر ت عمربن سعد کہتے ہیںکے حضرت امیر معاویہ کا ذکرسوائے بھلائی کے مت کرو کیونکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سُناہے ” اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت عطا فرما”ْ آپ کا عہد امارت اور دور اسلامی خلافت اسلامی فتوحات سے عبارت ہے۔
Islam
چنانچہ ٢٧ ھ کو آپ بحری بیڑا لے کر قبرص کی جانب بڑھے، اور مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ بحری جنگ لڑی ۔ ٢٨ ھ میں قبر ج جزیر ہ فتح ہوگیا ۔ ٣٢ ھ میں آپ نے قسطنطینہ کے قریب کے علاقوں میں جہاد جاری رکھا۔ ٣٣ ھ میں افزنطیہ ۔مغلیہ اور ورم کے کچھ قلعے فتح ہوئے۔ ٣٥ ھ میں آپ کی قیادت میں ذہ خشب کا معرکہ گرم رہا ۔٤٢ ھ میں جنگ سجستان ہوئی اور سندھ کا کچھ حصہ مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔ ٤٣ ھ میں سوڈان فتح ہوا۔ ٤٤ ح میں کابل فتح ہوا ٤٥ ھ میں افریقہ پر لشکر کشی کی گئی ۔ ٤٦ ھ سسلی پر پہلی بار حملہ کیا گیا۔ ٥٠ ھ میں قسطنطینہ پر حملہ کیا گیا ۔ ٥٤ ھ میں مسلمان بہر جیحون عبور کرتے ہوئے بخاریٰ تک آپہنچے۔٥٦ ھ میں سمر قند کی جنگ ہوئی۔ چنانچہ آپ کی رحلت کے وقت ٦٤ لاکھ ٦٥ ہزار مربع میل تک اسلام کا علم لہرارہاتھا۔ آپ کے دور میں چاروں خلفاء کے دور کا عکس موجود تھا ۔ کچھ لوگوں کویہ کہتے ہوئے دیکھا کے حضرت علی و حضر ت معاویہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف تھے اُن دونوں کے درمیان لڑائی تھی ، اس پر علامہ کمال اسومن المقدس اسافی منازعت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ حضرت علی و حضرت معاویہ کے مابین تنازع امارت و حکومت ( کے حصول ) میں نہیں تھا۔ جیسا کہ بعض (کم عقل ) لوگوںکو وہم ہوا ہے ۔ بلکہ قاتلین ِ (عثمان ) کو وارثین (عثمان) کے حوالہ کر دینے پرتنازع ہوا تھا تا کہ وہ ان سے قصاص لے سکیں ۔ ایک اور جگہ لکھا ہے ”میرا علی سے قتال صرف (قصاص دم )عثمان کے معاملہ میں ہے” ( المصنف لابن ابی شیبہ ج ١١ س ٩٢، کتاب الامرئ)
حضرت ابو الدردائ اور ابو امامہ فریقین میں رفع نزال کی کوشش کر رہے تھے تو حضرت امیر معاویہ نے ان سے کہا کہ حضرت علی کو میری طرف سے جا کر بتلا دو ” آپ کہیں کی عثمان کے قلوں کو سزا دینگے پھر پھر پہلے میں اہل شام میں سے ان کی بعت کرونگا۔ سیدنا علی خود بھی سیدنا معاویہ کے اس دعویٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے مہ کمنبر شمامہ میں فرماتے ہیں ( صقین میں ہمارے اور اہل شام کے درمیان جو جنگ ہوئی اس سے کوئی غلط فہمی نہ ظاہر ہوہے کہ ہمارا رب ایک ہے ہمارا بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہے۔ اور ہماری دعوت اسلام ایک ہے۔ جہاں تک اللہ پر ایمان اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایما ن کی بات ہے تو۔
حضر ت امیر معاویہ کی و منقبت میں کئی احادیث ورد ہوئی ہیں حدیث کے مختلف کتابوں میں ۔جس کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ یہ عظیم صحابہ اورروشن علم کا چراغ ہم سے کچھاس طرح جدا ہوا کے آپ کی طبیعت ناساز ہوئی اور طبیعت کی نا سازی مرضِ وفات میں تبدیل ہو گئی اور ٢٢ رجب المرجب ساٹھ ہجری کو آپ کا انتقال ہوا۔آپ کے دور ہی میں مسلمانوں نے اسلام کو آدھی سے زائد دنیا پر اسلام کا پرچم لہرایا اور کفر کو پاش پاش کر دیا اور اُسی صحابی کی سیرت اور اُن کے عظیم کارمے ہم بھول گئے ہیں آج ہمیں افسوس کے ساتھ اہل کفر کے ہیروں کے نام اور اُنکے کارمامے تو ہمیں یاد ہیں لیکن یا د نہیں تو صرف ہمارے اکابر اصحابہ کرام کے باد نہیں آج ہمارے ملک میں موسیقار، اداکار اور اِس کے نسل و نسب پر مبنی ایام تو ہم مناتے ہیں صرف حضرات صحابہ کرام کے ایام پھر نا کوئی پُرگرام ہوتا ہے جس میں اُنکی منقبت بیان کی جائے۔