تحریر : سید عبدالوہاب شیرازی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: مابعث اللہ نبیا الا رعی الغنم، فقال اصحابہ: وانتَ؟ فقال نعم، کنت ارعاھا علی قراریط لاَھل مکة۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کرام بھیجے ہر ایک نے بکریاں چرائی ہیں ، صحابہ نے پوچھا آپ نے بھی؟ فرمایا: ہاں میں بھی اہل مکہ کی بکریاں کچھ اجرت پر چرایا کرتا تھا۔علماء نے انبیاء کے بکریاں چرانے کی کچھ وجوہات بیان کی ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس پراسس سے ان کے اندر کچھ اوصاف پیدا کیے جو ایک نبی میں لازما موجود ہونے چاہیے۔ مثلا نبی نے قوم کی قیادت کرنی ہوتی ہے، لوگ مختلف راستوں پر بھاگ رہے ہوتے ہیں ان کو کنٹرول کرنا اور ایک سیدھے راستے پر چلانا بہت مشکل کام ہے جو بلاشبہ بغیر ٹریننگ کے سرانجام نہیں دیا جاسکتا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نبوت سے قبل اپنے نبیوں کی یہ ٹریننگ اور تربیت بکریاں چروا کران کے اندر قیادت اور لیڈکرنے کی صلاحیت پیدا کی۔
دوسری چیز جو ہر نبی میں ہونی چاہیے وہ صبر اور امت کا غم ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک دن حضرت موسی علیہ سلام نبوت سے قبل شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرا رہے تھے کہ ایک بکری بھاگ گئی، موسیٰ علیہ السلام اس کو پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگے لیکن بکری بھاگتی ہی گئی یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاوں پر بھاگنے کی وجہ سے آبلے پڑ گئے اور باالاخر انہوں نے اس بکری کو پکڑ ہی لیا۔
چنانچہ انہوں نے جب بکری کو پکڑا تو بجائے مارنے کے آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس بکری سے کہنے لگے: اگر تجھے مجھ پر رحم نہیں آیا تو اپنے آپ پر ہی رحم کھاتی، اگر تجھے میرے پاوں پر رحم نہیں آیا تو کم از کم اپنے آپ پر ہی رحم کھاتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا نبوت کے لئے موسیٰ ہی موزوں ہیں۔ کیونکہ امت کا غم کھانے اور ان کی طرف سے ایذاء وتکلیف کو برداشت کرنے کے لئے جس حوصلے اور دل جگر کی ضرورت ہے وہ ان میں موجود ہے۔
Hazrat Mohammad PBUH
قیادت اور لیڈر شپ پیدا کرنے کے لئے یہ کام ہر نبی سے کروایا گیا۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ یہ علم ترقی کرتے کرتے آج سوشل سائنس کے عنوان سے یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔اور مغربی ممالک، یورپ وامریکا کے اکثر لوگ اپنے بچوں کوپہلی ترجیح کے طور پر سوشل سائنس ہی پڑھاتے ہیں، تاکہ ہمارے بچے دنیا کی قیادت کرسکیں۔ ڈاکٹر اور انجینئر تو ہم اجرت پر بھی رکھ لیں گے کیونکہ وہ ایک پیشہ ہے جب کہ سوشل سائنس قیادت کرنے اور لوگوں پر حکمرانی کرنے کا علم ہے۔ یہ بات تو میں نے ضمنا عرض کردی۔ جیسا کہ مضمون کے عنوان میں آپ کو نظر آرہا ہوگا کہ میں نے لکھا ہے بکریاں چرانا اور چھوٹے بچے پڑھانا۔ تو میں یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ پاکستان کی مساجد میں صبح یا شام کے وقت ایک آدھ گھنٹے کے لئے محلے کے تیس چالیس بچے پڑھنے آتے ہیں۔
ایک گھنٹے میں انہیں پڑھانا، قاعدہ،ناظرہ کا سبق سننا اور پھر نماز کلمے دعائیں یاد کروانا اور اس سب کے ساتھ ساتھ ان کو کنٹرول کرکے رکھنا بھی بکریاں چرانے سے کم نہیں ہے۔ جیسے بکریوں کے گلے سے ایک بکری ایک طرف بھاگ جاتی ہے اور دوسری طرف، پھر کوئی بکری کسی کے کھیت میں چھلانگ لگا لیتی ہے اور کوئی کسی نازک پھول یا پودے پر منہ مارتی ہے، ایسے ہی ایک گھنٹے میں چالیس بچوں کو پڑھانا اور کنٹرول کرنا بھی نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔
وقت کی کمی کے باعث اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ سبق سننے کے علاوہ کوئی اور کام کیا جائے لیکن شرارتی بچوں کو ساتھ ساتھ کنٹرول کرنا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ آج کل کے دور میں جو قاری صاحب تین چار سال تک اس طرح بچوں کو پڑھا لے اسے کافی حد تک انسانوں کے بے ہنگم ریوڑ کو کنٹرول کرنے کا طریقہ آجاتا ہے، جو کسی نعمت سے کم نہیں۔