تحریر : فرخ وسیم بٹ ربیع اول اسلامی سن ہجری کا مبارک مہینہ ہو یہ سال اپنے دامن میں کیف و سرور اور محبت و مروت کے ان مٹ سمندر لیے جلوہ گر ہوتا ہے اور نگر نگر کار سالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تازہ جہاں آباد کر کے رحصت ہو جاتا ہے۔ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دھوم ایک طرف محبوب کبریا تاجدار کائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمارے تعلق محبت کا اظہار ہے اور دوسری طرف اس رشتہ غلامی کے ساتھ عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو نبھانے کا تجدید عہد بھی ہے۔
ربیع اول شریف کا دامن اس لیے نعمت ہائے ربانی سے مالا مال ہے کہ اس میں اللہ تعالی کے اس محبوب و مکرم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوا جس کی طفیل دنیا کی سب نعمتوں کو وجود ملایہی وجہ ہے کہ اہل ایمان ہر دور میں ان ایام کو زندگی کے قیمتی لمحات سمجھ کر ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزارتے ہیں۔ یو تو مسلمان کا ہر سانس اور زندگی کا ہر لمحہ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بسر ہونا چاہیے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی گھڑیاں تو بشریت کا وہ قیمتی سرمایا ہے جنہیں یادگار بنانے کیلئے ہر کاوش تحدیث نعمت کے ذمرے میں شامل ہو کہ ہاں محبوب و مقبول ٹھرتی ہے۔
ہمارا یہ عہد جس اضطراب اور بے یقینی کی گرفت میں ہے اس کا علاج انسانی علم کی بلندیوں اور مسائل کی فراوانی میں نہیں بلکہ اس نسخہ کیمیا میں موجود ہے جو اللہ تعالی نے آخری اور مکمل پیغام کے طور پر اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب و اطہر میں اتارا۔
Rabi ul Awwal
ربیع اول ہر سال ہمیں اسی پیغام کی عالمگیر اور اسی نسخہ کی اہمیت یاد دلاتا ہے کہ یہی نسخہ ہماری کامیابی کا ہمہ جہت عالمی کردار کی ضمانے فراہم کرتا ہے ۔ وہ کردار جس کی صداقت کا ڈنکا ساری دنیا میں پورے ١٢ سو سال بجتا رہا۔ یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دراصل انسانیت پر اللہ کے احسانات کی یاد دلاتا ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ اس دن انسانیت کو وہ اسوہ حسنہ اور خلق عظیم کی نعمت عطا ہوئی جس کیلئے گوشے سے امن، محبت، مساوات اور علم عرفان کو نور پھوٹتا نظر آتا ہے ۔ہمیں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن مناتے ہوئے کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم نجات بھی تھا شرک سے نجات، جہالے سے نجات، ظلم سے نجات، غلامی زنجیروں سے نجات ، شیطان اور طاغوت کے ہتھکنڈوں سے نجات اور جھوٹے خدائوں کی اذیت ناک خدائی سے نجات۔
یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دراصل اس انقلاب کی صبح نو تھی جس نے انسانیت کے دامن سے درندگی کی بد نما دھبوں کو دھویا اور اسے رحمت و راحت کے سدا بہار پھولوں سے بھر دیا۔ اس انقلاب نے عرب کے صحرائوں کو گلزار بنا دیا اور اونٹ اور بیڑ بکریوں کے چرواہوں کو قیامت تک علم و حکمت کی پیشوائی کا منصب عطا کیا۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ یہ امت جس کی ہدایت کیلئے اترنے والی وحی کا نقطہ اول علم و آگہی تھا آج اقوام عالم کی قطار میں یہی جاہل، جزباتی ، خونخوار اور انتہا پسند کہلاتی ہے کسی حد تک یہ پروپیگنڈہ سہی نہیں لیکن خاصی حد تک یہ حقیقت ہے کہ اس یوم کو یوم تشکر کو طور پر اس لئے بھی منایا چاہیے کہ اسی دن اس عالمی انقلاب کی کرنیں پھوٹیں جس نے غلام اور آقا کی غیر انصافی تفریق ختم کر دی یہی وہ تاریخی انقلاب تھا جس نے نوح انسانی کو حقیقی آبرو بخشی، جانوروں سے بد تر زندگی بسر کرنے والے غلاموں کو کو وہ جرت اور حوصلہ عطا کیا کہ اپنے آقائوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر جائز بات کرنے اور ان کے دست جفاکشی کو توڑ کو اپنا حق لینے کے قابل ہو گے۔
Muhammad PBUH
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت نے تمیز بندہ و آقا کا فرق مٹا کر فساد آدمیت کی ہر مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اسی انقلابی قیادت نے بلال و یاسر جیسے حبشی غلاموں کو قریشی سرداروں کا آقا بنا دیا اور ان ہاتھوں میں عظمت اسلام کا پرچم تھما کر کعبہ کی چھت پر کھڑا کر کے تمام مسلی تفاخر اور نسبی بڑھائی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا اسی خلق عظیم کا معجزہ تھا کہ تباہی کے کنارے پہنچی ہوئی قوم اللہ تعالی کی پسندیدہ امت بن گئی۔
آج پھر انسانیت کو معرکہ ہائے آگ و خون درپیش ہیں، زبردست قوتیں زیردستوں کو جینے کا حق دینے سے گریز کر رہی ہیں ، اشرف المخلوقات انسان اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے حیوانوں سے بھی بد تر دکھائی دے رہا ہے، وہی کالے اور گورے کی تفریق ہے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ محسن انسانیت ہیں جنہوں نے پہلی بار انسانی حقوق کا عالمی چارٹر پیش کیا اور صرف پیش ہی نہیں کیا بلکہ اس پر عمل کر کے دکھا دیا۔
ہر مرتبہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہوئے اس عزم کا مظاہرہ کریں کہ یہ وطن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرفروشوں و جانثاروں اور غلاموں کا مسکن تھے ، یہ زمین مصطفوی انقلاب کے ایمان پرور جذبوں کی امین ہے ۔ اس جشن کے موقع پر مواخات مدینہ کا تقاضا ہے کہ ہم قومی خود انصار کی منزل کو جلدپانے کیلئے ایثار و قربانی ، دیانتداری ، باہمی پیار و محبت اور محنت و اہلیت سے آگے بڑھیں۔ اللہ تعالی ہمیں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔