تحریر : عماد ظفر عدالتی فیصلے اکثر خود بول کر اپنے سچے یا جھوٹے ہونے کی گواہی دیا کرتے ہیں. ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ اس ضمن میں ایک مثال ہے جو آج بھی عدلیہ کے ماتھے پر ایک بدنما جھومر کی مانند سجی ہوئی ہے. ایسے فیصلے کی موجودگی اور مختلف ادواروں میں مارشل لا کی توثیق کرنے والی عدالتوں کیلئے سیاسی نوعیت کے کیسز کی سماعت سے انکار کر دینا ہی مناسب اور درست قدم معلوم ہوتا ہے.سیاسی نوعیت کے کیسوں کے فیصلے سیاسی محاذ پر کیے جائیں تو بہتر ہوتا ہے. پانامہ کیس کا حالیہ فیصلہ اس ضمن میں تازہ ترین مثال ہے جہاں فیصلے نے تصفیہ یا مناسب حل نکالنے کے بجائے سیاسی لڑائی کو مزید بڑھانے کا کام دے دیا. فیصلے کے متن کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ فیصلہ معزز عدلیہ نے میڈیا یا نادیدہ قوتوں کے دباؤ پر دیا. اور معزز جج صاحب کا اختلافی نوٹ جس میں ناول “گاڈ فادر” کا ایک اقتباس شامل تھا اس کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں عدالتی فیصلوں کی بنیاد افسانوی ناول بھی ہوا کرتے ہیں.
خیر فیصلے کے مطابق تمام فریقین کی جھولی میں کیک کا ایک چھوٹا ٹکڑا ڈال دیا گیا تا کہ فریقین اپنے اپنے حصے کا کیک کھا کر منہ میٹھا کر سکیں. فیصلے کی رو سے نواز شریف نااہلی سے تو بچ نکلے لیکن اخلاقی و سیاسی محاذ پر نقصان اٹھا بیٹھے. ایک ایسا وزیر اعظم جس کی اخلاقی پوزیشن کمزور ہو اور جس کے سر پر نااہلی کی تلوار بدستور جے آئی ٹی کی شکل میں لٹک رہی ہو اس کو ڈکٹیشن دینا اور اس سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانا “ایسٹیبلیشمنٹ ” کیلئے انتہائی آسان کام ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کو عدلیہ کے تعاون سے کمزور کر کے نہ صرف ایسٹیبلیشمبٹ اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہو گئی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں اور قائدین کو یہ پیغام بھی بھجوا دیا گیا کہ اپنی مقرر کردہ حد سے تجاوز کی صورت میں یہ سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے.
مٹھائیاں کھاتے اور اپنے اپنے ووٹرز کو جیت کا یقین دلواتے عمران خان اور نواز شریف اندر سے یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جیت صرف اور صرف ایسٹیبلیشمنٹ کی ہوئی ہے. عمران خان کو فیس سیونگ تو مل گئی لیکن انہیں اس امر کا اچھی طرح ادراک ہو گیا ہے کہ اس لڑائی کے نتیجے میں ان کے حصے میں کیک کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے علاوہ مزید کچھ اور نہیں آ سکتا. دوسری جانب نواز شریف کو بھی معلوم ہو چکا کہ ڈکٹیشن نہ لی تو وزات عظمی پر فائز رہنا ناممکن ہو جائے گا. ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف ڈکٹیشن قبول کرتے ہوئے محض ایک نمائشی وزیر اعظم کے طور پر گزارہ کرنے کو ترجیح دے سکتے ہیں؟ اگر نواز شریف کی سیاسی زندگی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ممکن نہیں دکھائی دیتا. جب 97 میں انہیں برطرف کر کے پابند سلاسل کیا گیا تھا تو انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے وقتی سمجھوتہ تو جلاوطنی کی صورت میں کیا تھا لیکن اس کے بعد بھرپور طریقے سے ایسٹیبلیشمنٹ کو جواب دیا. ایک ایسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیہ تشکیل دیا اور مشرف کا بوری بسترا گول کر کے پھر سے اقتدار کا مسند سنبھال لیا. نواز شریف نے بھی مشرف کو اقتدار سے باہر نکالنے کے لیئے عدلیہ کا سہارا لیا تھا.
عدلیہ بحالی تحریک میں نواز شریف کی بھرپور پشت پناہی شامل تھی .اس بار نواز شریف کو انہی کے داؤ یعنی عدلیہ کو استعمال کر کے کمزور کیا گیا .اس سارے کھیل میں دہائیوں پرانے بیانیے “احتساب” “انصاف” اور عام آدمی کی لوٹی گئی کھربوں روپے کی “فرضی رقم” کی داستانیں سنا کر میڈیا کے ایک حصے کے ذریعے رائے عامہ کو نادیدہ قوتوں کے حق میں اور سیاستدانوں کے خلاف کامیابی سے ہموار کیا گیا. اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ آپ خواہ عمران خان کو ماننے والے ہیں یا نواز شریف کو چاہنے والے ایک دوسرے کو مردہ باد کہہ کر اور اپنی اپنی جیت کا جشن منا کر دراصل سیاسی بیانیے کو ہی کمـزور کر رہے ہیں.اربوں کھربوں رقم کا وہ مفروضہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کے سامنے مختلف انداز سے پیش کیا جاتا ہے اس کی تفضیلات میں جانے کی ایک عام آدمی کی نہ تو فکری استطاعت ہوتی ہے اور نہ ہی اسے اس قدر وقت میسر ہوتا ہے.دوسرا یہ مفروضہ عام آدمیوں کی نفساتی و معاشی محرومیوں کو فرضی طور پر چند لمحات کیلئے دور کرنے کا باعث بھی بنتا ہے.وگرنہ ذوالفقار بھٹو سے لیکر بینظیر اور اب نواز شریف تک کتنے سیاستدان ایسے ہیں جن سے لوٹی گئی رقم برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کروائی گئی اور عوام کے بنک اکؤنٹس میں ٹرانسفر کر دی گئی؟ جن قوتوں نے احتساب اور کرپشن کا نعرہ لگوا کر سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرواتے ہوئے کھی مارشل لا اور کبھی ایمرجینسیاں نافذ کیں ان کے ادوار میں کسی بھی ایک بڑے سیاسی رہنما سے عوام کی لوٹی ہوئی رقم آخر برآمد کیوں نہ ہو پائی؟ اس سوال کا جواب غالبا ہر باشعور شخص جانتا ہے لیکن اس سے نظریں چرانے میں عافیت گردانتا ہے.
ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسی چلانے والے نادیدہ ہاتھ اس ملک کی ترقی نہ کر پانے جمہوریی اقدار نہ پنپ پانے اور دہشت گردی و افلاس کے ذمہ دار ہیں لیکن ان طاقتوں کے خلاف احتساب کی بات تو دور کی بات سوچنا بھی ایک جرم ہے. انصاف کی دلیلیں دیتے قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دیتے علما یا پارسا قسم کے افراد کو نہ جانے آمروں کے ادوار میں یا مختلف جرنیلوں کے کیسوں میں سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے؟ انصاف ہو تو پھر سب کیلئے ہی ہو محض سیاستدان کیوں اس کٹہرے میں آئیں/. پانامہ کیس تو ابھی ثابت ہونا باقی ہے البتہ مشرف کے کئی کرپشن کے کیسز اور ان کے سابقہ ساتھیوں کے کیسز شواہد کے ساتھ عدلیہ کی سنوائی کے منتظر ہیں لیکن عدلیہ کو مشرف یا مقدس گائے سے وابستہ دیگر افراد کے مقدمات سننتے وقت نہ تو گاڈ فادر کے کسی اقتباس کا خیال آتا پے اور نہ ہی کسی اسلامی حوالے کا. کسی بھی تگڑے افسر شاہی کے افسر کے کیس کو سنتے وقت اکثر اعلی اقداروں کے حامل جج حضرات ایک فون کال پر ہی ڈھیر ہو جایا کرتے ہیں. خیر عدلیہ اور مقدس گائے کا گٹھ جوڑ ایک پرانی اور روایتی حقیقت ہے اور شاید نواز شریف اور عمران خان دونوں اس امر کو سمجھتے ہیں.عمران خان اپنا کردار ادا کر چکے اور اب پیٹھ پھر تھپکی کے منتظر ہیں.اس بات سے قطع نظر کہ عمران خان اس لڑائی میں ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوئے اب خان صاحب کو یہ موقع میسر آ گیا ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے اپنی تنظیم کی جڑیں پورے ملک اور بالخصوص پنجاب میں مضبوط کریں.
عمران خان میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے پانامہ لیکس کے نفرت کو زندہ رکھتے ہوئے مسلم لیگ نون پر مسلسل دباؤ ڈالتے ہوئے اگر پنجاب میں تنظیم سازی مضبوط کر لیتے ہیں تو “فرشتوں” کی تھپکی کا کچھ اثر اگلے انتخابات میں چند نشستوں کی جیت کی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے. جبکہ نواز شریف کے پاس دو آپشن ہیں. یا تو وہ جے آئی ٹی کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیں یا پھر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے رہیں اور اپنے خلاف میڈیا اور سیاسی محاذ پر ایک مسلسل تنقید کا سامنا کرتے رہیں. نواز شریف کے پاس اسـوقت جو بہترین کارڈ ہے وہ مریم نواز کی صورت میں ہے. نواز شریف نے یوں بھی اگلے انتخابات میں مریم نواز کو وزیر اعظم کا امیدوار بنوانا ہے تو اس وقت نواز شریف کو ساری توجہ مریم نواز کو لانچ کرنے کی جانب لگا دینی چائیے .اگلے انتخابات کی مہم کا آغاز مریم نواز کے کسی جلسے کی صورت میں ایک سے دو ماہ کے بعد ہو جانا چاہیے. بجلی کے بحران کے خاتمے کیلئے کوششیں مزید تیز تر کرتے ہوئے اس کے خاتمے کو یقینی بنانا چائیے. بہرحال اس فیصلے کے تمام تر سیاسی پہلووں کے باوجود اگلے عام انتخابات میں نہ تو مسلم لیگ کی پوزیشن کمزور ہوتی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کو کوئی خاص کامیابی ملنے کے امکانات دکھائی دیتے ہیں. یہ بات ان نادیدہ قوتوں کے علم میں بھی ہے جو اس سارے کھیل تماشے میں کٹھ پتلیوں کی باگیں ہلا رہے ہیں. عام انتخابات کے منعقد ہونے کی صورت میں موجودہ سٹیٹس کو میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہونے والی. اس لیئے آنے والے دنوں میں وطن عزیز میں الیکڑانک میڈیا اور چند سیاسی کٹھ پتلیوں کے تعاون سے پورے سیاسی نظام اور بالخصوص انتخابات کے حوالے سے شدید قسم کا پراپیگینڈہ بپا کر کے عام آدمی کو انتخابات اور جمہوریت سے مزید بدظن کرنے کی بھرپور کوششیں کی جائیں گی .اس لڑائی کا دوسرا مرحلہ دو ماہ تک شروع ہو جائے گا .وطن عزیز کے اصل “گاڈ فادرز” یا یوں کہیے کہ “دا ان ٹچ ایبلز” (The untouchables) کے ساتھ طاقت کی اس جنگ میں نواز شریف نے فی الحال مہلت حاصل کر کے بساط کو پلٹنے سے بچا تو لیا ہے لیکن اگلا وار وہ سہہ پائیں گے یا نہیں یا پھر وہ خود کوئی نیا داؤ کھیلیں گے اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے.