ایک شخص نے بہت مال جمع کیا تھا اور کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اس نے نہ لی ہو۔ اس نے ایک عالی شان محل بنایا جس کے دو دروازے تھے۔ ان دروازوں پر غلام محافظ مقرر تھے۔ اس نے محل مکمل ہونے کے بعد اپنے عزیز و اقارب کی ایک شان دار دعوت کی۔ وہ ایک عالی شان تخت پر بیٹھا تھا اور لوگ کھانا کھا رہے تھے اور وہ دل میں کہہ رہا تھا کہ ہر چیز کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے کہ کئی سال تک خریدنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ خیال دل میں تھا کہ ایک فقیر پھٹے پرانے کپڑوں میں اس کے دروازے پر آیا اور زور سے دروازے کو پیٹنا شروع کیا۔ غلام دوڑے ہوئے باہر آئے کہ یہ کون نامعقول ہے۔ غلاموں کے دروازہ کھولنے پر فقیر نے ان سے کہا کہ جاؤ! اپنے مالک کو میرے پاس بھیج دو۔ غلاموں نے کہا کہ وہ تیرے جیسے فقیر کے پاس کیوں آئیں گے؟ اس نے کہا کہ ضرور آئیں گے، اس سے جا کر تو کہو۔ غلام آقا کے پاس گئے اور سارا قصہ سنایا۔ آقا نے کہا کہ تم لوگوں نے اسے مزہ نہ چکھایا۔ اتنے میں فقیر نے اور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ غلام دربان پھر دروازے پر آئے۔
فقیر نے کہا کہ اپنے آقا سے کہو کہ میں موت کا فرشتہ (ملک الموت) ہوں، اس کی روح قبض کرنے آیا ہوں۔ یہ سن کر ان کے ہوش اڑ گئے اور آقا سے جاکر کہا۔ اب آقا کے اوسان خطا ہوئے، غلاموں سے کہا کہ اس سے کہو کہ فدیہ لے لے یا کسی اور کی روح قبض کرلے۔ اتنے میں فقیر اندر پہنچ گیا۔ اور بولا کہ میں تیری جان نکالے بغیر نہیں جاؤں گا۔ آقا نے کہا کہ یہ میرا سارا مال اسباب لے لے اور مجھے چھوڑ دے۔ لیکن ملک الموت نہ مانا، وہ شخص نے مال کی طرف منہ کر کے کہنے لگا کہ تجھ پر لعنت ہو۔ تونے مجھے اپنے رب کی عبادت سے روک دیا اور اتنا وقت نہ دیا کہ میں یکسو ہو کر نماز پڑھ سکتا اور اللہ کی عبادت کرتا اور اللہ کی خوشنودی کے لئے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو بولنے کی قوت عطا کر دی۔ مال کہنے لگا تو مجھ پر لعنت ملامت کیوں کرتا ہے۔ تو میری ہی وجہ سے بڑے بڑے سرداروں اور بادشاہوں تک پہنچ جاتا تھا جبکہ نیک لوگ دروازے ہی سے بھگا دئے جاتے تھے۔
میری ہی وجہ سے تو حسین و جمیل عورتوں کی صحبت حاصل کرتا تھا۔ میری ہی وجہ سے تو بادشاہوں کی طرح رہتا تھا اور برائی کے کاموں میں رقم خرچ کرتا تھا۔ تو اگر خیر کے کاموں میں مجھے خرچ کرتا تو آج تیرے کام آتا۔ اس کے بعد ملک الموت نے اس کی روح قبض کر لی۔ لیکن ہمارے اوپر مسلط حکمرانوں کو یہ باتیں سمجھ نہیں آتی وہ اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو خوب سہانے خواب دکھاتے ہیں جیسا کہ اُن کے اقتدار میں آتے ہی ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ نکلے گی۔ لیکن جیسے ہی انہیں اقتدار ملتا ہے وہ بدمست ہاتھی کی طرح بے قابو ہو جاتے ہیں اور ہرچیز کو قواعد کو لوگوں کے حقوق کو اپنے پیروں تلے روندتے ہی چلے جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی وقت ملک الموت آسکتا ہے۔ عوام کو توسہانے خواب دکھا کر بیوقوف بنایا جا سکتا ہے مگر ملک الموت کو ٹالنا کسی بشرکی سکت نہیں۔
Allama Iqbal
ایسے ہی الیکشن کے دنوں میں میاں صاحب حضرت علامہ اقبال کا ایک شعر اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی جناب میاں صاحب اپنی اکثر تقاریر میں اس شعر کو بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔اور بارہا کہتے تھے کہ ہمیں اقتدار مل گیا تو ہم ایسی پالیسی ترتیب دینگے کے ہمیں کسی سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی ایسے وسائل کو تلاش کیا جائے گا کہ جلد سے جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہوا جائے اور اس ملک کو قرض کے شکنجے سے نجات دلائیں گے اور بھی بہت سے دعوے کئے تھے میاں صاحب نے جن کی اگر فہرست گنوانے بیٹھوں تے صحیفے کمر پڑ جائے گے ۔مگر محترم میاں صاحب کے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کے ہوش ٹھکانے آگئے بجلی کا بحران جو پہلے شدید تھا وہ شدید سے شدید تر ہو گیا۔ دہشت گردی کے انتہائی ہولناک واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا جس میں حضرت قائد اعظم کے زیارت میں واقع گھر کو نشانہ بنایا گیا میری نظر میں یہ کوئی چھوٹا واقع نہیں۔ یہ اُس عظیم ہستی کا گھر تھا جس نے ہمیں اپنی جان پر کھیل کر یہ ملک بنا کر دیاجس کی وجہ سے ہم ایک قوم کہلانے کے حقدار ٹھہرے اور ہماری حکومت اُس عظیم قائد کے گھر اور اس ملک کے اثاثہ کو بھی نہ سنبھال سکی تُف ہے ایسی حکومت پر۔
معصوم بچیوں کی بس پر خودکش حملہ کر کے اُن طالبات کو شہید کر دیا گیا جو حصول علم کی تلاش میں سرگرداں تھی لیکن صرف بیانات سے آگے کوئی کاروائی نہ ہو سکی ابھی لوگ اس غم و صدمے سے نہ نکل پائے تھے کہ نانگا پربت میں غیر ملکیوں پر حملہ کر کے ملک دشمن عناصر نے اُن نہتے لوگوں کو مار کر پوری دنیا میں پاکستان کا امیج خراب کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر حکومت پچھلی حکومت کی طرح مذمتی بیان تک ہی محدود ہے۔ کب تک آخرکب تلک ایسا چلے گا۔ سو بات ہو رہی تھی حضرت علامہ اقبال کے لازوال شعر کی اور بڑے میاں صاحب کے خطاب کی چھوٹے میاں صاحب پر تو کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی کیونکہ انہوں نے عوام کو سہانے خواب دکھانے کی ایک طویل ترینسوپ سیریل چلا رکھی تھی جس کو بعد از اقتدار بڑے میاں نے چھوٹے میاں کی جوش خطابت کا نام دے کر تمام لکھنے والوں کا مکھو ہی ٹھپ دیا ہے۔
تمام باتیں اپنی جگہ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ایسا کیا طوفان آکھڑا ہوا کہ آئی ایم ایف سے پھر قرض لینا ضروری ہو گیا جو کہ سودپر مبنی ہوگا اور یہ ملک جس کا نام ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اسلام میں سود سب سے ناپسندیدہ فعل ہے اور اللہ نے متعدد جگہ سود سے منع فرمایا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ سلم نے کئی احادیث میں سود سے باز رکھنے کی بڑی واضح اور کھلی تاکید کی ہے میری ذاتی رائے میں مجھے قطعی یہ امید نہیں تھی کہ ایک قرض بمہ سود کو اتارنے کیلئے دوسرا قرضہ بمعہ سود لینے کا اہتمام کیا جائے گا۔ میاں صاحب آپ نے تو پانچ سال خانہ کعبہ میں گزارے ہیں بار بار اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کا شرف آپ کو حاصل رہا لا تعداد نمازیں مسجد نبوی میں ادا کی اور پھر بھی آپ سود دجیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بجائے اُسے اپنا نے کیلئے پر تول رہے ہیں صرف طوالت ِاقتدار کیلئے اور بہت سے راستے ہیں جن پر چل کر پاکستان کو لازوال ملک بنایا جا سکتا ہے۔
اللہ کریم نے اس ملک کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا ہے کہ اگر آپ راہ حق پر ڈٹ جائیں اور غیر ملکی آقائوں کی غلامی ترک کرنے کا تہیہ کرلے تو خدا کی قسم آپ کو قدم قدم پر اللہ کی مدد حاصل ہو جائے گی اور بہت جلد یہ ملک اس دنیا کا سب سے پرامن اور ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ مگر اس کیلئے اپنے اندار سے اقتدار کی لالچ کو ختم اور اسلامی شعائر کو اپنانا ہو گا, صرف باتیں ختم کر کے اس ملک کی عوام کی تقدیر سنوارنے کیلئے دن رات ایک کرنے کا جذبہ حقیقی پیدا کرنا ہو گا۔ وگرنہ ملک الموت ایک ایسی حقیقت ہے جیسے کوئی ذی روح جھٹلا نہیں سکتا۔ خدارہ اب بھی کچھ کرلیںکہ رہتی دنیا آپ کا نام رہ جائیں اور اللہ سبحان تعالیٰ کے روبرو بھی سر خرو ہو جائیں۔ ایسے ہی مواقع پر حبیب جالب نے ایک بہت خوبصورت شعر کہا ہے کہ۔ جو شخص تجھ سے پہلے یہاں تخت نشین تھا اُس کو بھی خدا ہونے پراتنا ہی یقین تھا