سونے کا انڈا دینے والی مرغی مہنگائی کے ملبے میں دب گئی

Inflation

Inflation

تحریر : ممتاز ملک.پیرس

جنوبی ایشیاء کے ممالک خصوصا پاکستان میں عوام کی سہولت کے نام سے کوئی آسانی دستیاب نہیں ہے ۔ جب بھی وہاں حکومت بدلتی ہے تو “خزانہ خالی ہے ” کہہ کر عوام کی گردن کاٹنے کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے۔

بڑے ہی جوش و خروش کیساتھ دنیا بھر کے جھوٹ پر پچھلی حکومت کی بھرپور کردارکشی کی مہم چلائی جاتی ہے ۔ جو کبھی بھی ثابت نہیں کی جا سکتی ۔ اس مہم پر عوام کی کھال بیچ بیچ کر اربوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے ۔ آنے والی نئی حکومت کے کل کے فکرے اور بھوکے ننگے ممبران کھا کھا کر دنبے طن جاتے ہیں ۔ دونوں ہاتھ لوٹ مار کی گنگا میں جی بھر کر دھوئے جاتے ہیں ۔ ہر وہ قانون سازی کی جاتی ہے جس سے صاحب اختیار ٹولے کو خوب خوب موج کروائی جا سکے ۔ ہر قانون ہر اس سیاستدان کے لیئے ہوتا ہے جو موجودہ حکومت میں شامل نہیں ہوتا ۔ اور ہر وہ سیاستدان نیک اور متقی قرار دیدیا جاتا ہے جو موجودہ حکومت کے پرنالے کے نیچے پہنچ کر اشنان کر لے۔

اسی کھینچا تانی میں جلوس نکلتا ہے ہماری عوام کا ۔ ہمارے ملک کا بھی سب سے بڑا المیہ یہ ہی ہے کہ ہر حکومت اور اس کا ہر نمائندہ پچھلی حکومت کے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کا ایسا تیہ پانچہ کرتا ہے جیسے اس پر لگا ہوا مال عوام کا نہیں ہے بلکہ اپوزیشن اپنے گھر سے لائی تھی جسے برباد کر کے سابقہ حکومت یا اپوزیشن کو سزا دی جا رہی ہے ۔ یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ ہر آنے والی حکومت اپنے اللے تللوں کے لیئے اور اپنی انا کی پوجا کے لیئے ہر حد حد پار کر دیتی ہے۔

حکومتوں کی اس خود پرستی میں عوام کی حالت بالکل دھوبی کے کتے کی سی کر دی جاتی ہے جو نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ اس وقت پاکستان کی بات کریں تو مہنگائی کا وہ سونامی برپا کیا جا چکا ہے جسے دیکھ کر حکمران کا بیان سو فیصد سچ ثابت ہوا کہ میں ان کو رلاونگا ، میں ان کو تڑپاونگا ، میں ان کی چیخیں نکلواونگا۔ واقعی ہماری حکومت نے یہ ہی سب کیا لیکن وطن دشمنوں کیساتھ نہیں بلکہ اپنی ہی مظلوم عوام کیساتھ ۔ جہاں مڈل کلاس کا وجود ختم کرنے کی پوری پوری منصوبہ بندی عملی جامہ پہنے نظر آ رہی ہے۔

بکرے کا گوشت کھانا تو پہلے بھی پاکستانیوں کی اکثریت کا خواب ہی رہی ہے اب تو وہاں گائے کا گوشت کھانا بھی خواب ہو چکا ہے ۔ اور تو اور سبزی کے بھاو آسمانوں سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی پھل کو دیکھ کر حسرت سے نگاہیں واپس پلٹ جاتی ہیں ۔

حکومت کسی کی بھی ہو ان سے ایک ہی درخواست ہے کہ آپ کی ساری عیاشی اور موج مستی بلکہ آپ کے وجود کا انحصار بھی اس عوام نامی سونے کا انڈا دینے والی مرغی پر ہے ۔ سو برائے مہربانی انڈے تبھی کھائے جا سکتے پیں جب اس مرغی کو اس کی ضرورت کے حساب سے دانہ دنکا ملتا رہے ۔ اور اسی دانے کو جب آپ اس تک پہنچنا ناممکن بنا دینگے تو نہ تو یہ مرغی رہے گی اور نہ ہی آپ کو کھانے کو اس کا سونے کا انڈا مل سکے گا ۔ اس لیئے براہ کرم عوام نام کی مرغی کو پوری حفاظت اور پوری خوراک کیساتھ زندہ رہنے دیجیئے ۔ اس کی دوا دارو کو اس پر آسان کیجیئے ۔آج ہمارے ملک میں گھر کا ایک فرد اگر بیمار ہو جائے تو سمجھ جائیے کہ اس بیچارے کا سارا خاندان اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہونے اور بھیک مانگنے کی حالت تک پہنچنے کو جا رہا ہے ۔ تعلیم حاصل کرنا بھی خود کو بیچنے جیسا ہو چکا ہے۔

تعلیم کے نام پر صرف دو نمبر ڈگریاں ہیں جو یہ تعلیمی اداروں کے دکاندار چلا رہے ہیں۔ نہ تو اس کے طلبہ کے پاس کوئی دنیا کو دکھانے اور مقابلہ کرنے کا تعلیمی معیار ہے اور نہ ہی اخلاقی تربیت ۔ ایسے میں اگر کوئی طالبعلم کہیں سے بھی نکل کر قومی یا بین الاقوامی سطح پر اپنا نام بناتا یے تو یہ اس پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے جس پر وہ تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنی ذاتی محنت سے کوئی پڑاو پار کر لیتا ہے ۔ ورنہ عام طالبعلم محض سال پر سال گزار رہا ہے اور کاغذ کی ردی کو اسناد کے نام پر جمع کر رہا ہے ۔ اتنی مہنگی تعلیم کے بعد بھی ردی ہی جمع کرنی ہے تو وہ وقت یاد کیجیئے جب ہر چیز گلیوں میں ریڑھیوں پر بکتی تھی اور سستی اور خالص تھی ۔ جب سرکاری سکولوں کے ایک ہی بینچ پر مزدور ، کرنل اور جاگیرداروں کے بچے پڑھا کرتے تھے اور بہترین علم مفت میں حاصل کیا جاتا تھا ۔

غور کیجیئے ہمارے ملک کی ہر اخلاقی گراوٹ پیسے کی ہوس اور اختیار کی لالچ میں دفن ہو گئی ہے ۔ اب بھی وقت ہے اس مہنگائی کے ملبے کے نیچے سے عوام نام کی سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو بچا کر نکال لیجیئے ۔ اس کے انڈے یی اس ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں ۔ سو اس اثاثے کی دیکھ بھال کے لیئے پہلا اور سب سے اہم قدم اٹھایئے اس کی خوراک میں سے مہنگائی کا زہر نکال دیجئے تاکہ یہ زندہ رہ سکے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک.پیرس