تحریر : عماد ظفر ایک بہت مشہور کہاوت ہے کہ “سو سنار کی اور ایک لوہار کی”. قومی اسمبلی کے رواں سیشن میں وزیراعظم نواز شریف کے خطاب اور اپوزیشن کے اسمبلی سے بھاگنے کے بعد یہ کہاوت بالکل ٹھیک نواز شریف پر صادق آتی ہے. ایک لوہار کا بیٹا ہونے کے ناطے سے انہوں نے اپوزیشن کو ایسی کاری سیاسی ضرب لگائی کہ جس کے بعد اپوزیشن تو ایک طرف خود حوالدار اینکرز اور تجزیہ نگاروں کو بھی سانپ سونگھ گیا. سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے تھے کہ اس اجلاس میں کچھ خاص نہیں ہونے والا اور نہ ہی پیپلز پارٹی مفاہمت کی سیاست چھوڑ کر چارٹر آف ڈیموکریسی کے معاہدے سے پھرے گی. البتہ عمران خان صاحب سیاسی محاذ پر ایک بار پھر خوب استعمال ہوئے اور آج جب قومی اسمبلی کے باہر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ میڈیا سے خطاب کر رہے تھے تو جناب عمران خان ان کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے تھے.یاد رہے کہ یہ وہی خورشید شاہ ہیں جنہیں عمران خان صاحب نواز شریف کا چپراسی کہتے آئے ہیں۔
آج خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنی حکمت عملی سے عمران خان صاحب کو باور کروا دیا کہ “چپراسی” جوتے گسوانے پر آئے تو چکر پر چکر لگوا کر چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتا ہے اور سیاست ایک آرٹ ہے جس سے جناب عمران خان ابھی تک نا بلد ہیں. اپوزیشن کا وزیر اعظم کے خطاب کے بعد واک آؤٹ کرنا صاف صاف نواز شریف کو ایک واک اوور تھا اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی اعلی قیادت میں اس امر پر اتفاق ہو چکا تھا کہ نواز شریف کی تقریر کے بعد اپوزیشن اسمبلی سے واک آؤٹ کر جائے گی۔
کیونکہ بعد میں ارکان اسمبلی کا آپس میں تند و تیز جملوں کا تبادلہ یقینی تھا جسے جمہوریت مخالف بیانیے کے علمبردار اور ان کے چمچے خوب استعمال کر کے سیاستدانوں کو ہی نیچا دکھانے کی کوشش کرتے. البتہ خود کو عقل کل سمجھنے والے جناب عمران خان صاحب کو یہ معمولی سی سیاسی حکمت عملی نہ سمجھ آ سکی ا اور یوں وہ ایک بار پھر نواز شریف کے ہاتھوِ کلین بولڈ ہو گئے. آف شور کمپنیوں کی سیاست نے جناب عمران خان کی سیاست کے سوئچ کو ہی آف کر ڈالا. نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اسپیکر پر ٹی اور آرز بنانے کا معاملہ چھوڑ کر اور اپنی تقریر میں بھی دو ٹوک اشارہ دے دیا کہ اب وہ کسی دباو میں نہیں آئیں گے اور اس سے زیادہ عمران خان کو دینے کیلئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔
Imran Khan
دوسری جانب عمران خان صاحب کا وزیر اعظم کی شیروانی پہننے کا ارمان ہے کہ کسی بھی طور انہیں صبر سے کام لینے ہی نہیں دیتا. پانامہ لیکس کا معاملہ ویسے بھی اب صرف میڈیا کی حد تک ہی زندہ ہے کیونکہ ایک آف شور کمپنی جناب عمران خان صاحب کی بھی نکل آئی ہے اور وہ من و عن تسلیم کر چکے ہیں .کچھ دن پہلے تک عمران خان اکثر کہا کرتے تھے کہ آف شور کمپنیاں حرام کی کمائی کو حلال ثابت کرنے اور ٹیکس چوری کرنے کی خاطر بنائی جاتی ہیں .میرے پاکستانیوں آپ کا لیڈر آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا. یہ الفاظ جناب عزت ماآب عمران نیازی کے ہیں جو انہوں نے متعدد بار جلسوں میڈیا ٹاک اور یہاں تک کہ قوم سے زبردستی کے فرمائشی خطاب میں دہرائے. جس برق رفتاری سے عمران نیازی صاحب آف شور کمپنیوں کو لیکر حکومت پر چڑھ دوڑے اسی برق رفتاری سے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی آف شور کمپنیوں دوارے انکشافات پر ایک بار پھر یو ٹرن لیا اور اب کی دفعہ عوام کو سمجھایا کہ آف شور کمپنی غیر قانونی نہیں ہوتی۔
بلکہ اگر پیسہ ناجائز ذرائع سے بھیجا جائے تو غلط ہوتا ہے اور پھر آف شور کمپنی کی حیثیت پر سوال اٹھتے ہیں. یعنی دوسرے الفاظ میں اگر عمران خان اور ان کے ساتھی کوئی جرم کریں تو اسے جرم نہ سمجھا جائے البتہ باقی تمام لوگوں کو محض عمران نیازی کی فرمائش پر مجرم قرار دیکر فوار سے پیشتر سولی سے ٹانگ دیا جائے. نیازی سروسز لمٹڈ نامی کمپنی لندن میں 1983 سے رجسٹرڈ تھی جسے 2015 میں ختم کیا گیااس پورے دور میں جناب عمران نیازی نے نہ تو کوئی ٹیکس گوشوارےجمع کرواتے وقت اس آف شور کمپنی کا ذکر کیا اور نہ ہی کبھی اس آف شور کمپنی کے بارےمیں سچ بولنے کی زحمت کیـ بلکہ 1987 میں جناب عمران نیازی صاحب نے نواز شریف کو درخواست لکھی تھی کہ میرا کوئی زریعہ آمدنی نہیں اس لیئے مہربانی فرما کر سرکاری خرچے سے مجھے ایک پلاٹ عطا کیا جائے۔
یعنی غریب عوام کی کمائی سے حاصل کیا ہوا پلاٹ بھی ڈکار مارے بغیر ہضم لیکن ایمانداری کے بھاشن ایسے جیسے اس صدی میں محترم عمران نیازی سے ایماندار آدمی اور کوئی آیا ہی نہیں. عمران نیازی صاحب خود یہ فرماتے رہے ہیں کہ جن سیاستدانوں کے پیسے باہر پڑے ہیں ان کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تو اب عمران نیازی صاحب سے سوال بنتا ہے کہ 1983 سے 2015 تک جو پیسے انہوں نے باہر رکھے اس جرم کی پاداش میں ان کیلئے بھی کوئی سزا بنتی ہے یا سزا جزا کی باتیں محض ان کے سیاسی مخالفین کیلئے ہیں. وعدہ تو عمران خان نے یہ بھی کیا تھا کہ وہ اسمبلی میں اپنی آف شور کمپنی سے متعلق سوالات کا اور الزامات کا جواب دیں گے لیکن “وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ” کے مصداق ہمیشہ کی طرح بھاگنے میں عافیت جان کر عمران نیازی صاحب خوش ہو گئے۔
National Assembly
اب عمران نیازی صاحب کو کون سمجھائے کہ 32 قومی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ اگر حکومتیں الٹای جا سکتیں تو پھر پاکستان میں ہر دوسرے ماہ انتخابات ہی ہوتے رہتے. نواز شریف اور ان کی جماعت نے دھرنے کے بعد سے طے کر لیا ہوا ہے کہ عمران خان کی سیاست کا جواب انہی کی طرح دینا ہے اور بلیک میل نہیں ہونا .یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے عمران خان کے فرمائشی سوالات کا جواب تقریر میں ہرگز نہیں دیا. اور حوالدار اینکرز اور تجزیہ نگاروں کو شدید تیزابیت اور جلن کا شکار کر دیا.عمران خان سے زیادہ کرب میں حوالدار میڈیا نظر آیا جو ملک میں غربت کی وجہ پانامہ کی آف شور کمپنیاں اور نواز شریف کو قرار دیتے عوام کو یہ یقین دلانے پر مصر نظر آ رہا رہا تھا کہ عمران خان اور ہمنوا قومی اسمبلی سے بھاگے نہیں بلکہ یہ حکمت عملی ہے. ایسے ایسےصحافی اور اینکرز جنہیں راقم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے پلاٹ اور مراعات کے حصول کیلئے ہر قسم کی اخلاقیات اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے دیکھا ہے وہ حضرات بھی ایمانداری اور قانون پر عمل در آمد کے بھاشن دینے میں آگے آگےنظر آ رہے تھے۔
خیر بات چلی تھی اس محاورے سے کہ سو سنار کی اور ایک لوہار کی ،تو میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں جان بوجھ کر 44 سال پہلے کا حوالہ دیتے ہوئے اس زمانے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں ڈالرز کی پاکستانی روپوں میں مالیت اور اپنے خاندان کی آمدنی کا ذکر کیا. اس کا ایک پہلو تو اس وقت بھی اپنی فیملی کی مضبوط اور مستحکم مالی حیثیت کی یاد دہانی تھی اور لگ بھگ انہی برسوں میں ایک اور واقعے کی جانب سیاست کے خود ساختہ !رابن ہوڈ”کی توجہ بھی مرکوز کروانا تھی. ایک سرکاری ملازم کو ان دنوں رشوت خوری کے الزام میں سرکاری نوکری سے برخواست کیا گیا تھا.اور عقلمندوں کیلئے اشارہ ہی کافی ہے کہ نواز شریف نے دبے لفظوں میں کس کو یہ یاد دہانی کروائی۔
Democracy
پانامہ لیکس ہوں یا سوئس بنک اکاونٹ یہ وہ ٹرک کی بتیاں ہیں جن کے پیچھے سادہ لوح عوام کو لگا کر جمہوریت اور سیاستدانوں کو بدنام کر کے ایک ایسا بیانیہ تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو پس پشت قوتوں کے مفاد میں ہو. عمران خان اقتدار کی ریس کا گھوڑا تو ہیں لیکن ایسا گھوڑا جو لنگڑا ہے اور شاید پس پشت قوتوں کو بھاتا بھی ہے کہ لنگڑا گھوڑا جتنا بھی زور لگا لے ریس کی اختتامی لائن کو عبور کرنے کی اہلیت اور استطاعت نہیں رکھتا. سیاسی طور پر ایک بار پھر نواز شریف نے بازی مار لی ہے لیکن اپنے خاندان سے متعلق آف شور کمپنیوں پر اگر وہ واقعتا ایک آزادانہ کمیشن بنوا کر تحقیقات کا آغاز کریں اور پھر دیگر پردہ نشینوں کو بھی اس کٹہرے میں لائیں تو اگلے عام انتخابات بھی انہیں جیتنے سے روکا نہیں جا سکے گا۔