حسن اخلاق، معاشرت اور ہمارے پیمانے

Husn-e-Akhlaq

Husn-e-Akhlaq

تحریر: محمد التمش خان، کراچی
یوں تو ”حسن اخلاق“ پر لکھی گئی کتابوں سے کتب خانے بھرے پڑے ہیں مگر لکھنے سے یا پڑھنے سے کم ہی کسی میں اخلاق آتے ہیں، ویسے بھی لکھنے والوں کا کام لکھنا ہی تو ہے عملی کمزوری یا بد اخلاقی کا جرم لکھنے والے کو نہیں جاتا۔ لکھنے والے لکھ کر چلے گئے ان کا لکھا ہوا ایک دستاویز کی صورت موجود ہے۔

اخلاق کی ایک تعبیر آفاقی اور عالمگیر ہے، اور ایک تعبیر ہم میں سے ہر ایک کی خود ساختہ ہے، وہی عالمگیر تعبیر مسئلے کھڑے نہیں کرتا وہ تو انسان کی فطرت میں میانہ روی کا نام ہے، حسن اخلاق جذباتیت سے کوسوں دور اور اشتعال کے پاس بھی نہیں گزرتا۔ میانہ روی کے لےے دور جانے کی ضرورت نہیں یوں سمجھ لیں ایک آدمی اگر کسی کی تعریف کرتے ہوئے آسمان و زمین کی قلابیں تک ملا جائیں تو یہ ” حسن اخلاق” کے زمرے میں نہیں آسکتا ممکن ہے ان کے ممدوح کے لےے اخلاق کی اس سے کوئی اعلیٰ مثال نہ ہو کہ اپنی تعریف کسے بری لگے گی مگر ہر چند جذباتیت پر منتج امور ” حسن اخلاق” کے دائرے میں نہیں آتے۔ اب یوں ہی دوسری طرف سمجھ لیں کسی انسان کے نظریے، سوچ سے اختلاف کرنا ہر گز بداخلاقی کے زمرے میں نہیں آتا مگر میانہ روی یہی ہوگی کہ آپ نظریاتی اختلاف کی آڑ میں کسی کی ذاتیات پر نہ جائیں، اگر آپ نظریہ یا فکر پر تنقید کے بہانے اگلے کی ذاتی زندگی کی داستان کھول بیٹھتے ہیں اور بضد ہیں کہ اسے اسلامی حدود میں داخل کر کے ” صاف، شفاف اور بے غبار تنقید کا نام دیا جائے تو ایسی سوچ پر” لاحول ” اور” سبحان تیری قدرت ” کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مسئلے اس وقت کھڑے ہوتے ہیں جب ہم اپنے بنائے ترازو سے دوسروں کو ناپنا شروع ہوجاتے ہیں، جب ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرے کا ہر فرد ہمارے قائم کردہ اصولوں پر ناک کی سیدھ میں چلے، جب ہم یہ باور کرانا اپنا آئینی حق سمجھنے لگتے ہیں کہ ساری دنیا کی مجبوریاں ایک طرف اور ہماری ذاتی مجبوری دوسری طرف، سارے لوگ اپنی ضروریات ایک طرف رکھ کر ہماری ضرورت حل کرنے میں لگ جائیں۔چلیں اسی معاشرے کے ایک ایسے فرد کی مثال سامنے رکھ دیتا ہوں جن کے ساتھ اگر زندہ رہنا ہے تو ملنا بھی ضروری ہے۔

ڈاکٹر معاشرے کے لےے ایک مسیحا کا درجہ رکھتا ہے، ایک ڈاکٹر صاحب نے یہ اصول بنائے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر 60 مریضوں کی تشخیص کر کے نسخے لکھیں گے۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی دن خود ڈاکٹر صاحب کی طبیعت ذرا سی بگڑ جاتی ہے مگر ڈاکٹر صاحب معمول کی طرح مریضوں کو دیکھتے ہیں، جب آخری مریض کی باری آتی ہے تو ڈاکٹر صاحب ان کی تشخیص وغیرہ کرنے کے بعد معمول سے ہٹ کر کچھ کم بولتے ہیں مریض تلملا اٹھتا ہے اپنی بیماری کا پوچھتا ہے ڈاکٹر صاحب ایک لائن میں جواب دے کر خاموش ہوجاتے ہیں مریض کچھ کہتا ہے اور پھر نکل جاتا ہے۔

مریض اگلے دن کسی سے ملتا ہے اور ذخیرہ کردہ تمام اچھے القابات ڈاکٹر صاحب کو دینے کے بعد یوں گویا ہوتے ہےں کہ بھائی یہ فلاں ڈاکٹر بڑا بد اخلاق ہے آپ لازماً مریض کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں مگر اس پوری صورت حال کا اندازہ آپ کو ہے اور نہ ہی مریض کو، نہ ہی آپ ڈاکٹر صاحب کو ایک انسان کے درجے میں رکھ کر رائے قائم کرتے ہیں نہ ہی مریض، اور یوں وہ بداخلاق نام پالیتے ہیں۔

Society

Society

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایک انسان ہونے کے ناطے جو عارضے مجھے لاحق ہیں کسی کو بھی ہوسکتے ہیں تو آپ ایک متوازن تجزیہ کرسکیں گے لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ” حسن اخلاق” کی وہی تعبیر درست ہوگی جو میں کروں اور حسن اخلاق کا تمغہ وہی آدمی حاصل کرسکے گا جنہیں میں حقدار بتاوں تو پھر ہم عرض کرسکتے ہیں ” صاحب! آپ کے پیمانے بہت ارزاں ہیں” آپ ایک معاشرہ نہیں جنگل کے لےے اخلاقیات بنا رہے ہیں۔

تحریر: محمد التمش خان، کراچی
0345-2267561