تحریر : قادر خان پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کلر سیداں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فرقہ وارانہ اور دہشت گردوں تنظیموں کے درمیان فرق کی بڑی دلچسپ تشریح بیان کی کہ” پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی کوئی گنجائش نہیں، دہشت گرد تنظیموں اور فرقہ ورانہ تنظیموں میں فرق ہے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے، فرقہ ورانہ بنیادوں پر کالعدم قراردی گئی جماعتوں کے لوگ اب بھی پاکستان میں ہیں لیکن ہرچیز کو مولانا لدھیانوی سے جوڑنا کہاں کا انصاف ہے۔ کیا علامہ ساجد نقوی کو دہشت گرد تنظیموں سے جوڑا جاسکتا ہے، یہ دونوں شخصیات محب وطن ہیں، مگران کی تنظیمیں کالعدم ہیں۔ پیپلزپارٹی کا کون سا لیڈر اپنے دور میں کالعدم جماعتوں کے لوگوں سے نہیں ملا”۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان شائد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی الگ نظریہ ہے اور فرقہ پرستی ایک الگ نظریہ ہے ، لیکن پاکستان میں اب تک ہونے والی تقریباََ 80فیصد دہشت گردی کے واقعات فرقہ وارانہ سر پرستی کی آڑ میں ہوئے ہیں، مساجد ، مدارس ، امام بارگائیں ،مزارات پر ہونے والے خود کش واقعات اوربم دھماکے فرقہ وارانہ حربے کو ہی استعمال کرکے کئے جاتے ہیں ۔ دہشت گردی کا بلا شبہ کوئی مذہب نہیں ہوتا ، لیکن اس کا اپنا ایک نظریہ ہوتا ہے اور وہ دہشت گرد اسی نظریئے کے تحت انتہا پسند بن کر معصوم بے گناہ انسانوں ، قومی سلامتی کے اداروں اور معروف شخصیات کو نشانہ بناتے ہیں۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کے بعد گڈکالعدم تنظیم اور بیڈ کالعدم تنظیم میں فرق کوختم کرنا ہوگا ۔ کالعدم تنظیموں پر صرف نام رکھنے کی پابندی ، ملک میں انتہا پسندی کو جڑ سے ختم نہیں کرسکتی ۔اگر ایک فرقہ اپنے نظریات کو جبراََ کسی پر مسلط کی متشدد کوشش کرتا ہے تو وہ ازخود دہشت گردی بن جاتی ہے۔دیکھنا یہ چاہیے کہ مولانا لیدھانوی اور علامہ ساجد نقوی دونوں محب الوطن ہیں تو پھر انھیں کالعدم کیوں قرار دیا گیا ہے، اُن وجوہات کا کوئی حل طلب راستہ بھی تو ہوگا ، صرف ایک جماعت پر ہی میڈیا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کیوں ہے ، مولانا لیدھانوی اگر میڈیا میں نہیں آسکتے اور وزرا سمیت ارباب و اختیار سے نہیں مل سکتے تو یہ کلیہ علامہ ساجد نقوی پر کیوں لاگو نہیں ہوتا کہ وہ میڈیا میں بھی آتے ہیں ، ان کے شرکا ء ٹاک شو میں بھی بیٹھتے ہیں ، ان کی خبریں بھی چلتی ہیں ، ٹکر بھی چلائے جاتے ہیں ، مذمت بھی چلائی جاتی ہے ، اہل تشیع کا نام لیکر نیوز میں اپنا نکتہ نظر بھی بیان کرتے ہیں ، لیکن دوسری جانب اس کے برخلاف ہے۔
یہاں گڈ کالعدم تنظیم اور بیڈ کالعدم تنظیم کا مفروضہ ختم کرنا ہوگا ،کوئی بھی شخص یا جماعت اسلام یا پاکستان کے آئین و قانون کے خلاف متشدد نظریہ رکھ کر پرچار کرتی ہے تو ، وہ صرف دہشت گرد ہی کہلائے جا سکتے ہیں ۔ گڈ و بیڈ کی اصطلاحات نے پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ یہ گڈ و بیڈ کا نرم گوشہ ہی ہے کہ پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرنے والے اور را سے مدد و فنڈ لینے والے آج بھی میڈیا میں جگہ پاتے ہیں ، انھیں اہمیت دی جاتی ہے ، جب کہ ملک دشمن تنظیم کے متعدد کارکنان قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے جن میں ایم آئی ، آئی ایس آئی ، آئی بی ، ایف آئی اے ، سی آئی ڈی ، سپیشل پولیس شامل ہوتے ہیں ان کے سامنے جے آئی ٹی میں مملکت پاکستان کے خلاف بھارت و ملک دشمن عناصر کے احکامات پر دہشت گردی کے اقرار نامے بمعہ ویڈیو ،ثابت کرتے ہیں کہ ان کا یجنڈا صرف پاکستان کی تباہی تھا۔
Pakistan Politians
اب ان میں بھی گڈ و بیڈ کی اصطلاحات سے عوام کنفوژن کا شکار نظر آتے ہیں کہ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف سرگرم گروپ ملک سے باہر بیٹھ کر پاکستان کی بد نامی کا سبب بن رہا ہے لیکن اس کے سہولت کاروں کو کھلی آزادی حاصل ہے کہ جب چاہیں وہ میڈیا میں بلا لئے جاتے ہیں ۔یہاں مسئلہ صرف مولانا لیدھانوی یا علامہ نقوی کا نہیں ہے بلکہ اس نظریئے کا ہے جو دہشت گردی کے واقعات کا سبب بن رہا ہے۔تو بھی کافر میں بھی کافر کہنے سے کام نہیں چلے ، کافر ، کافر ہی ہوتا ہے ، مسلمان ، مسلمان ہی ہوتا ہے ، اسی طرح دہشت گرد ، دہشت گرد ہی ہوتا ہے، کوئی بیڈ اور کوئی گڈ نہیں ہوتا ۔پاکستان کو اپنی داخلہ پالیسی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ملکر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر بنانا ہوگی۔ لیکن یہاں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر کام کرنے کا تصورکمزور پالسیوں و اداروں کہا ں سے پیدا ہوگا ۔ امریکہ کے نائب صدر چھلکتے آنسوئوں کے ساتھ اپنی غریبی کا نوحہ دنیا بھر کو بتا رہے تھے کہ ان کا بیٹا کینسر کا مریض تھا ، علاج معالجے کے اخراجات برداشت نہ کرسکے تو اپنا آبائی گھر فروخت کرنے لگے ، امریکی صدر کو علم ہوا تو انھوں نے قرض دے کر گھر تو بچا لیا لیکن اپنے نائب کے بیٹے کو کینسر کے ہاتھوں موت سے نہیں بچا سکے۔
یہاں ایک اور مثال بھی ہے کہ امریکہ کے سابق صدر جب آٹھ سال بعد وائٹ ہاوس سے رخصت ہو رہے تھے تو ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنا ذاتی مکان خرید سکتے تھے ، گذر اوقات کے لئے انھوں نے یونیورسٹیوں کو لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا ، جس سے ان کے گھر کا چولہا جلا ۔ہم موجودہ کسی اسلامی ریاست کا ذکر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ کوئی اسلامی ملک قابل مثال نہیں ہے ہاں ماضی میں مسلمانوں میں بھی ایسے حکمران گذرے ہیں کہ چاہیے ان کے ہاتھ اپنے بھائیوں کے خون سے رنگے کیوں نہ ہوں ، اپنے بھائیوں کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر کر انھیں اندھا کیوں نہ کردیا ہو ، لیکن اپنی گذر اوقات کیلئے شاہی خزانے کے بجائے خطاطی اور قرآن کریم کے نسخے تحریر کرکے ، ملنے والا معاوضہ پر ہی عمر بسر کی ۔ خلافت راشدہ کی مثال تو رہتی دنیا تک نہیں مل سکتی ، سب جانتے ہیں کہ23 لاکھ مربع میل کے فاتح خلفیہ کا طرز زندگی کیسا تھا ، کہ اپنے لئے ایک جوڑا بھی نہیں بنا سکتے تھے۔ ایک بار میٹھاحلوہ گھر میں پکا تو پوچھا کی گُڑ کہاں سے آیا ، تو جواب ملتا کہ کئی دنوں کی بچت سے بچا یا تھا ، تو اس قابل ہوا کہ میٹھا حلوہ بنا سکی ، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اسی وقت اٹھے بیت المال گئے حکم دیا کہ اب گُڑ کم بھیجا کرو ، ہمارا گذرا کم گڑُ سے بھی ہوجاتا ہے۔
یہاں بات صرف اتنی ہے کہ جب تک ادارے مضبوط و حکمران مخلص نہ ہوں اس وقت تک ہمیں اسی مثالیں اپنے ملک میں قطعی نہیں مل سکتی ، ہمارے سیاست دان باچا خان بابا کی طرح بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اپنے ہاتھ سے کپڑا کاتتے ، اپنے ہاتھوںجُو کو پس کر روٹی اپنی چادر میں باندھتے ، پانی سے گذرا کرتے اپنی گھٹری خود اٹھاتے ، زیادہ تر پیدل سفر کرتے ، دور جانا ہوتا تو اپنے رفیق’ فرید طوفان’ کی پرانی ہائی روف کا سہارا لے لیتے ۔ جو ان کے اونچے قد کی وجہ سے انھیں تکلیف پہنچاتی ، لیکن خانوں کے خان ، خان عبدالغفار خان کی ذات ہی ایسی تھی کہ جب کراچی رپوے اسٹیشن پر پہنچے ، ہجوم غفیر دیکھا تو ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا کہ لوگوں کو راستہ بند ہونے پر تکلیف ہورہی میرے منع کرنے باوجود کیوں آئے ، میں ان کے ساتھ اسٹیشن سے نہیں نکلوں گا جب تک یہ لوگ واپس جلسہ گاہ میرے بغیر نہیں جاتے ۔ پھر وہی ہوا اور خدائی خدمت گاروں کو باچا خان کی بات ماننے پڑی۔جب تک خدائی خدمت گارگئے نہیں بابا باہر نکلے نہیں۔سیاسی خدمات اور اس کی مثالیں ہمیں آج کے اس مادی دُور میں بھی ملتی ہیں لیکن بات وہی ہے کہ ہم نے اداروں کو مضبوط نہیں کیا۔
America
امریکہ کا اگر نائب صدر رو رہا ہے تو ان کے ملک کے ادارے اس قدر مضبوط ہیں کہ بنک سے لون لینے کی شرائط اسلئے پوری نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی تنخواہ کم ہے لیکن پاکستان میںاربوں روپوں کے قرضے لیکر معاف کرادینا فیشن بن گیا ہے ، سیاست کاروبار بن گیا ہے ، 12 سال کا بچہ باہر ملک بزنس کرتا ہے کھربوں روپوں کا مالک بن جاتا ہے ، باپ بچارا غریب ہے ، کروڑوں روپوں کے تحفوں پر گذارا کرتاہے، بہن ایک ایسے شخص کو بیاہ دی ، جو اپنی بیوی کے اخراجات تک پورے نہیں کرسکتا ۔ارب پتی بھائیوں کی بہن کا کوئی کفیل نہیں کہ اس کی کوئی کفالت قبول کرے ۔ “کس قدر غریب فیملی ہے”۔ ہمارے ملک میں غریبوں کیلئے روٹی نہیں ، لیکن گھوڑوں کیلئے دیسی گھی کے بنے مربے ہیں ، بچوں کے کھیلنے کیلئے میدان پارک نہیں، لیکن لوگوں کے گھروں میں ریس کورس اور گولف کھیلے کیلئے میدان ہیں ، کس قدر غریبوں کے ہمنوا ہیں۔
متوسط طبقے کے دعوے داروں کے کراچی میں120 گز کا مکان ہیں لیکن لندن امریکا میں اربوں کے جائیدایں ہیں۔بعض لیڈر کا روزگار نہیں ، اشتہارات میں ماڈلنگ و چندے پر گذر اوقات کرتا ہے ، لیکن کھربوں روپوں کے گھر میں رہتا ہے۔یہ طبقاتی تفریق ہے ، نثار خان صاحب اب آپ بھی دہشت گردوں کی تفریق کر رہے ہیں ۔دہشت گردی کو فرقہ واریت سے جدا کر رہے ہیں ، فرقہ پرستی ہی تو اصل میں دہشت گردی ہے ، فرقوں پرپابندی لگائیں ، دہشت گردی خود ختم ہوجائے گی۔
اداروں کو مضبوط بنائیں تو گھوڑوں کو مربوں کے بجائے عوام کو دو وقت کی روٹی ملے گی ، کوئی اپنی طیبہ کو فروخت نہیں کرے گا ، انسان سب کچھ کرسکتا ہے ، کچھ نہیں تو طاقت ور امریکہ سے ہی کچھ سیکھ لیں کہ جو نائب صدر اپنے بچے کا علاج نہیں کراسکا اور وہ بیماری کے باعث چل بسا ، تو جس ملک کے اسپتالوں میں ٹھنڈے فرشوں پر مائیںبچے پیدا کرتی ہوں ، اس کے حکمران رب تعالی کو کیا جواب دیں گئے ؟ کیا ان کے لئے میزان بھی کھڑی کی جائے گی کہ نہیں!!۔