تحریر : ماجد امجد ثمر ہمارا ملک ہمیں شناخت دیتا ہے، ایک پہچان دیتا ہے جسے عام لفظوں میں ہم شہریت بھی کہتے ہیں اور شہریت ہر انسان کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے یوں اس کے بدلے میں ہماری بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس ملک میں ایک اچھے شہری بن کر ذندگی گزاریں اورایک اچھے شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا ایسا کردار اور افعال اپنائے جو نہ صرف اس کی اپنی ذات بلکہ ملک کے لئے بھی فائدہ مند ہو۔اس کی سب سے اولین خوبی یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے وطن سے ہر دم مخلص رہے اورکبھی بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جو غداری کے ذمرے میں آتا ہو کیونکہ جو شخص اپنے وطن سے وفا داری نہیں کر سکتا وہ کسی بھی ملک سے مخلص نہیں ہو سکتا۔
مانا کہ آج ہماری ذندگی غربت، مہنگائی ،بیروزگاری کے ساتھ ساتھ اور بہت سے معاشرتی مسائل میں الجھ کر رہ گئی ہے لیکن ہمیں ان سب کا سامنا کرنا ہے اور اس میں سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنا ہے اپنے شعور کو تھوڑا وسیع کرنا ہے کیونکہ مثبت اور اچھی سوچ ہی انسان کو ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ مسائل ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان سے باغی ہو کر اپنے ہی ملک کے خلاف کسی قسم کے پروپیگنڈا سے اجتناب کرنا ہے اورکوشیش کرنی ہے کہ ہمارا کوئی بھی عمل ایسا نہ ہو جس سے ملکی ساکھ اور سا لمیت کو کوئی نقصان پہنچے۔اس کے علاوہ ایک اچھے شہری کی یہ خوبی ہو کہ وہ قانون کا احترام کرے ۔ ملک میں جرائم کی شرح کو بڑھا کراسے بدنام نہ کرے۔ ہمارا دین ہمیں انسانیت کے احترام کا سبق دیتا ہے یوں انسانیت کا احترام ہم سب کا فرض ہے بلکہ ایک اچھے شہری کی یہ کوشیش ہونی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی اذیت نہ پہنچے ۔اور وہ اس سوچ یا اس محاورے پر ہر گز عمل نہ کرے کہ اگر اس کی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی مسئلہ ہے تو یہ اس (دوسرے ) کا مسئلہ ہے نہ کہ اس کا اپنا۔وہ دوسروں کے مسائل کو بھی اپناہی مسئلہ سمجھے اور اپنی طاقت کے مطابق ان کی مدد کرے۔
ایک اچھے شہری کو تو انسانیت کا بہترین دوست اور معاشرے کا رضا کار ہونا چاہیے ۔ایک اچھے شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک میں امن و سلامتی کا خاص خیال رکھے۔ملک میں ہنگامہ آرائی ،توڑپھوڑ،بدامنی اور انتشار مت پھیلائے اور نہ ہی سرکاری یا نجی املاک کو ئی نقصان پہنچائے۔اس وقت کا ایک اہم مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ہے اور اس کے خلاف جنگ صرف آرمی ہی کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے۔ لہذا ہمارا ہر عمل ملکی مفاد اور اندرونی معاملات کی بہتری کے لئے ہی ہونا چاہیے۔ایک اچھے شہری کی یہ بہت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا ہمیشہ صحیح استعمال کرے۔ امیدواروں کے نعروں یا ان کے کھانوں سے متا ثر ہو کر ووٹ کا فیصلہ نہ کرے بلکہ اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے یہ خیال کرے کہ یہ ایک ایسا بیج بو رہا ہے جسے اسے بعد میں کاٹنا بھی ہے۔ ایک شہری کے حصے میں جو ٹیکس آتا ہے وہ اسے بروقت اور لازم ادا کرے۔
Votes
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں اور بہت سے ایسے مسائل ہیں جو لوگوں کے لئے بڑی تکلیف کا باعث بنتے ہیں جیسے کہ ایک اچھے اور مہذب شہری کو یہ کام ہر گز ذیب نہیں دیتا کہ وہ قطار کو توڑ کر آگے بڑھے جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لوگ لائن میں لگناشائد اپنی ہتک جانتے ہیں کیونکہ اکثر بل جمع کرواتے ہوئے یا پٹرول ڈلواتے ہوئے کئی افراد بڑی مکاری یا ہوشیاری سے دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی فتح کے بعد ان کے چہروں پر ندامت کی بجائے عجیب سی خوشی و مسکراہٹ ہوتی ہے۔لیکن ایسا کرنا دوسروں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے ذرا صبر وتحمل سے کام لیں اپنی باری کا انتظار کریں اور قطار میں لگنا اپنا اصول بنائیں۔اس طرح اب اکثر جگہوں پر ‘ نو پارکنگ’ کا بورڈ آویزاں ہوتا ہے۔جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہاں گاڑی کھڑی نہ کریں لیکن نہیں ہماری قوم کی سوچ کاتو معیار ہی کچھ انوکھا ہے ہم عین اسی جگہ بلکہ اس بورڈکے بالکل سامنے ہی گاڑی کرنا اپنا فرض بلکہ فخر سمجھتے ہیں۔ایک لمحہ بھی یہ احساس نہیں کرتے کہ یہاں کسی کے گھر کا درواذہ ہے یا کسی کی دکان کا راستہ۔اب ان بیت الخلائوں کو ہی دیکھ لیں جو عوام کی سہولت کے لئے بنائے گئے ہیںوہاں بھی کچھ فنکار اپنے فائن آرٹ کے جوہر دکھانے سے باز نہیں آتے کیونکہ اکثر ان واش رومز کی درودیوار پر انتہائی ناذیبا جملے ،نازیبا اشعار اور فحش تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں۔
آخر ایسا کرتے ہوئے ایک پل کیلئے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہاں جانے والا کوئی ان کا فیملی ممبر بھی ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ اب اگر صدقے کے گوشت ،انڈے یا دالیں وغیرہ کی بات کریں تو لوگ ایسی چیزو ں کو چھت پر یا کسی کونے میں پھینکنے کی بجائے راستے میں پھینک کر ذہنی اور روحانی تسکین حاصل کر تے ہیں لیکن ان کی یہ حرکت دوسروںکے لئے انتہائی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اب لوگ جب اپنے گھر یا بلڈنگ وغیرہ تعمیر کرواتے ہیں۔تو ریت اور بجری وغیرہ کا ڈھیر بکھر کر آدھی سے ذیادہ گلی میں آیا ہوتا ہے ۔ جس سے نہ صرف پیدل گزرنے والوں کو مشکل ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات موٹر سائیکل سلِپ ہوکر حادثات کا سبب بن جاتی ہے لیکن صرف چند اینٹیں لگا کر اس ریت یا بجری کے ڈھیر کو بکھرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
کوڑاکرکٹ کے متعلق تو بات کرنا ہی فضول ہے کیونکہ اپنے گھر کا کچڑا دوسروں کے درواذوں کے آگے پھینکنا تو ہماری قوم کا روایتی اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔اور اس روایت کو ذندہ رکھنے میں ہر عمر ،ہر طبقے اورحتیٰ کہ پڑھے لکھے لوگوں کی بھی محنت شامل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کام ہیں مثلاً موٹر سائیکل یا گاڑی پر سفر کرتے ہوئے بغیر پیچھے دیکھے پچکاری پھینکنا، نوسموکنگ ایریا میں سگریٹ نوشی کرنا ، دوسروں کو شرارتاً غلط راستہ بتانا،باغوں میں جا کر پھولوں کو توڑنا جیسی عادتیں شامل ہیں۔ لیکن ایک اچھے شہری کو اپنے اندر یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہر صورت ماحول کا احترام کرے۔ اور آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر کوئی شہری اپنے ملک کے فائدے اور معاشرے کی فلاح کے لئے کوئی اچھا کام نہیں کر سکتا تو بے شک نہ کرے لیکن خدا کے لئے یہاں کچھ برا بھی نہ کرے۔