ایک وہ دور تھا جب ہمارے بزرگ ہمیں اچھائی برائی میں تمیز سکھاتے اور جو کہتے۔ ہم سر تسلیم خم کر کے مان لیتے اور سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اپنی راہ لیتے۔ امن اور سکون تھا۔ باہم اتفاق، پیارو محبت اور خلوص کی فضا پورے خاندانی ماحول کو خوشگوار بنائے رکھتی۔
ایک یہ دور ہے۔ بزرگوں کی اہمیت قدرے کم ہو گئی ہے۔ ان کی باتوں میں وہ اثر نہیں رہا۔جتنا ڈراموں، ٹاک شو اور مختلف پرگراموں میں ہے۔ٹی وی چینلز ان گینت ہیں۔ مگر سکون نہیں۔ ایک شخص اپنی مصروفیات اور مختلف تفکرات سے تھک ہار کر جب ٹی وی کا بٹن ان کرتا ہے۔ تو دل دہلا دینے والی خبریں، دھماکوں کیی اطلاعیں، قتل وغارت زیادتی کے قصے، بے حیائی کے نمونے غرض کہ سکون تو در کنار مزید دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے اور اعصاب میں مذید کچھائو پیدا ہونے لگتا ہے۔
اگر میں ڈراموں کا زکر کروں۔تو احباب کو یاد ہو گا کچھ عرصہ پہلے ادھر ڈرامہ کا وقت ہونا ا’ دھر تمام فمیلی بڑے شوق سے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے اور بلا خوف و خطر سارا ڈرامہ دیکھتے اور انجوائے اور تبصرے کرتے ہوئے اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے اور آج کا ڈرامہ فمیلی کے ساتھ دیکھنا تو دور کی بات اکیلا شخص بھی بیٹھا دیکھ رہا ہو تو اس کی نظریں ادھر ا’دھر گھومتی ہیں کہ کوئی اور تو نہیں دیکھ رہا۔ ڈائیلاگ اسے ہوتے ہیں کہ بار بار آواز دھمی کرنی پڑتی ہے۔ آدھے گھنٹے کے ڈرامے میں کم از کم پندراں اشتہار تو لازمی ہوتے ہیں۔ جو تھوٹا بہت ڈرامہ دکھایا بھی جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی مثبت خیالات اور نتائج سامنے نہیں آتے۔۔۔اکچھ چینل ہمیں اچھے پروگرام بھی دیتے ہیں۔ معلوماتی، دلچسب مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔
ہمارا میڈیا ہمیں ہر خبر سے با خبر رکھتا ہے۔ اچھی بات ہے ہر ایک کو اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کا علم ہونا چاہیے۔ کبھی یہی میڈیا زیرو کہ ہیرو اور ہیرو کو زیرو بھی بنا دیتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو اشیو بنا کر اتنی بڑی خبر بنا دی جاتی ہے۔ کہ پورا ملک اس بحث میں الجھ جاتا ہے اور بڑی بڑی باتوں کو بڑے لوگ خامشی اور اتفاق سے دبا لیتے ہیں۔
Military Alert
ملک تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ حکومت پنجاب نے تمام اضلاع میں فوج کو الرٹ رہنے کا حکم دے دیا۔ ملتان بہاولنگر اور کئی شہروں میں کشیدگی جاری ہے اور ہمارے علماء شہادت پہ فتوٰی جاری کر دیتے ہیں اور تو اور امریکہ سے نفرت کے اظہار میں کتے کو بھی شہادت کا مرتبہ دے رہے ہیں۔ (استغفراللہ) اخبارات، ٹی وی، نیٹ غرض کہ ہر جگہ اس فتوٰی پر گرما گرم اور لا حاصل بحث ومباحثہ جاری تھا اور پوری قوم کے ساتھ ساری دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔ کہ پنڈی کے واقعہ نے اس خبر کو دبا کر ملک میں ایک نیا انتشار اور فرقہ ورانیت اختلافات کی کشمکش میں عوام کو مبتلا کر دیا۔
کتنے ہی بے گنہ مارے گئے۔ بے شمار لوگ ایک ہی دن میں امیرسے فقیر ہو گئے۔ ظالم خاموشی سے آگ لگا کر نکل گئے اور پاکستانی آپس میں دست و گرباں ہیں۔ جس کے جو منہ میں آتا ہے کہہ رہا ہے۔ مگر کیا اس واقعہ کے ذمے دار لوگ سامنے آئیں گئے؟؟؟ مذہبی اختلافات تو ازل سے چلے آ رہے ہیں۔ ہر فرقہ خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہتا ہے۔ کہیں طریقہ نماز میں اختلاف ہے۔ تو کہیں قرآنی آیات کے تراجم میں اختلاف ہے۔ کہیں اسلامی روایات میں اختلاف ہے۔ کہیں حضرت مسیح کے آنے اور نہ آنہ میں اختلاف ہے۔
عقائد کا اختلاف تو دنیا میں ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر یہ حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ کہ اپنے عقائد کو جبراکسی پہ ٹھوسنے کی کوشش کرے۔ یا ایسے عقائد کے مطابق عمل پیرا ہو۔ جو ظلم اور تعدی کی تعلیم دیتے ہوں۔ یہ طریق جب بھی اختیار کیا جائے گا ہمیشہ ایک لا متناہی فساد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
اختلافات معقول حد تک دور کرنے یا سچائیوں کو پھیلانے کا ایک اور صرف ایک طریق ہے۔کہ امن اور سلامتی کے ماحول میں ہر تعصب سے پاک ہو کر ایک درسرے تک اپنے خیالات کو پہنچایا جائے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو دیانتداری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ جس قدر اختلافات شدید ہوں گے۔
Justice
اسی قدر اس معاملہ میں حلم، بردباری اور متانت کی زیادہ ضرورت ہو گی اور اس بات کی بھی ضرورت ہو گی کہ اشد ترین مخالف کے معاملہ میں بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور نظریاتی اختلافات پر سیخ پا ہو کر نعرہ ہائے جنگ بلند کرنے کی عادت ترک کر دی جائے۔۔ بس ایک سوال ہے۔ ہر پاکستانی سے، ہر اس شخص سے جو خود کو مسلمان کہتا ہے۔ وہ خود سے سوال کرے کہ۔۔
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو