قدرت نے انسان کی طبیعت میں ایک فطری میلان رکھ دیا ہے کہ وہ کائنات میں تن تنہا زندگی بسر کرنے کا خواہشمند نہیں ہوتابلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو والدین کی صورت میں، میاں بیوی کی صورت میں یا بہن بھائیوں کی صورت میں اور دوست احباب کی صورت میں ایسے رفقا میسر آجائیں کہ اس کی زندگی میں موجود الجھنوں اور پریشانیوں کا بآسانی مداوا کیا جاسکے۔جس کے سبب زندگی ہمیشہ کے لیے گل و گلزار ہوجاتی ہے۔مندرجہ کلام میں اس کی تفصیل درج کی جارہی ہے۔انسان انفرادی طورپرخود کمزور واقع ہوا ہے اس کی وجہ سے گوشہ نشینی پر دوستوں کے ساتھ نشست و برخاست کو ترجیح دیتاہے ۔اور یہ امر مناسب بھی ہے کیونکہ تنہائی میں شیطان جلدی غالب آجاتاہے ۔جیسے حدیث میں ہے کہ بھیڑیا تنہا بکری و بھیڑ کو نشانہ بنالیتاہے ۔ یعنی جب بکری و بھیڑ اپنے ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے تو بھیڑیا کے لیے آسان ہوجاتاہے اس کو اپنا لقمہ اجل بنانا۔اسی طرح اگر انسان خلوت نشینی اختیار کرلے اور معاشرے سے قطع تعلق کرے تو اس پر شیطان کا جال مضبوطی کے ساتھ بچھ جاتاہے کہ وہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے انسان کو عبادات و نیک کا موں سے دور کردینے میں کامیاب ہوجاتاہے۔چکنی چپڑی باتوں اور دلیلوں کے ذریعہ انسان کو نیک اعمال سے دور کردیتاہے۔کبھی کہتا ہے کہ آپ کے جسم کا بھی آپ پر حق ہے جو کہ شریعت میں مذکور ہے لیکن اس کا شیطانی استدلال غلط ہوتاہے اسی طرح سستی و کاہلی کے احساس سے بھی مطلع کرتاہے کہ اس کے بغیر آپ بیمار ہوجائیں گے۔ گویا کہ وہ نماز و روزہ اور قیام اللیل سے روکنے کے لیے بہت سی دلیلیں پیش کرتا ہے۔
شیطان کی زبان کی بہت سی اقسام ہیں جس کو اس کے پیروکار بخوبی سمجھتے ہیں خصوصا وہ کمزور لوگ جو دین میں اپنے لیے رخصت تلاش کرتے رہتے ہیں۔برے اعمال کا ارتکاب کرکے اس کی مثل یا ملتے جلتے مسائل پر استدلال کرلیتے ہیں۔قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ شیطان ان کے اعمال کو ان پر خوبصورت بناکر پیش کرتاہے تاکہ وہ راہ حق سے بھٹکے رہیں۔لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جو شیطان کے دکھلائے ہوئے راستے پر گامزن رہتے ہیں ۔اور اس کی عقل و منطق کی پیروی کرتے رہتے ہیںاس طرح سے وہ صراط مستقیم سے بھٹک جاتے ہیں ۔باوجود اس کے کہ اچھائی اور برائی واضح اور بین ہے ۔انسان پر ہے کہ وہ دودھاروں میں سے کس دھارے کا انتخاب کرتاہے اپنے لیے۔
یہاں ہم ایسے کمزور شخص سے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں جو اپنی زندگی علیحدگی میں درست طورپر انجام نہیں دے سکتا بلکہ اس کو ہمیشہ کسی مخلص دوست و رفیق کی ضرورت ہے جو اس کو سیدھے راہ پر گامزن رہنے کی تلقین کرتارہے۔شہوات اور خواہشات نفسانی کی کثرت ہے کہیں نیند کی صورت میں تو کہیں سستی و کاہلی اور لہو لعب کے مشاغل اور کھانے پینے کے امور وغیر۔تاہم اس کے باوجود وہ اطاعت ربانی کا خواہشمند ہے لیکن اس کے پاس مضبوط ارادہ اور عزیمت پر قائم رہنے کی طاقت و قوت نہیں۔ایسے شخص کو ضرورت ہے کسی ایسے معاون و مددگار کی کہ جو اس کا شریک حال ہوکر اس کو خیر و فلاح کیے کاموں پر کاربند رہنے کی ہدایت کرتارہے۔تاکہ وہ نماز و روزہ اور تلاوت قرآن کریم اور دیگر نیک اعمال پر عمل کرے۔پرانے زمانے میں بزرگ لوگ اپنے کھانوں میں قسم ہائے قسم کی اشیاء کو جگہ دینے اور کثرت طعام سے مجتنب رہتے تھے تاکہ ان کو عبادت کے دوران سستی و کاہلی سے سابقہ نہ پڑجائے۔
ایسے میں آدمی کسی شخص و بزرگ سے وابستہ ہوکر نیکی و خیر کے کاموں میں مصروف ہوجاتاہے کہ وہ اطاعت و فرمانبرداری اور نیکی اور خیرکے کاموں میں مشغول رہتاہے اور بدی و عیب کے کاموں سے اجتناب کرتاہے۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت کی نماز کا ثواب انفرادی نماز پڑھ لینے سے کئی گنازیادہ ہے۔اور گھر میں اجتماعی روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے کہ کوئی ایک فرد روزہ رکھ لے تو اس پر دن بہت مشکل سے گزرتاہے۔نیک لوگوں کے ساتھ رابطہ انسان کے شعور اطاعت گزاری کو تقویت پہنچاتاہے۔یہاں یہ خیال بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ لازمی ہے کہ انسان کی رفیق حیات(بیوی)ایسی ہونی چاہیے جس کا اللہ تعالیٰ سے ربط و تعلق مضبوط ہونہ کہ ایسی بیوی ہوجو قربت الٰہی سے محروم ہوایسے میں انسان کی دنیا و آخرت دونوں غارت ہوجاتی ہیں۔جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہۖ کا تعلق ازواج مطہرات کے ساتھ کیسا تھا کہ آپۖ ان کو نیکی کے ہر کام میں اپنے ساتھ شریک کیا کرتے تھے کہ یہاں تک اگر وہ صبح نیند میں مستغرق ہوتیں تو آپۖ ان کو نماز فجر کے لیے بیدار کرنے کے لیے پانی چھڑک دیتے تھے ان پر۔اسی طرح آپۖ ازواج مطہرات کے ساتھ اطاعت الٰہی کے طرق و اسالیب پر بات چیت بھی فرمایا کرتے تھے۔
اسی طرح انسان کو لسن استعمال کرکے بیوی کے ساتھ شریک گفتگو ہونے یا کسی مجلس میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے کہ اس سے اس کو کراہت ہوسکتی ہے بعینہ اسی طرح فرشتوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے جس سے سے آدم کے بیٹوںکو تکلیف ہوتی ہے۔یہ اشتراک و تعاون نیکی کے کام میں ثابت ہے ازواج مطہرات و نبی اکرمۖ کے مابین۔اسی بناپر انسان کو دوستوں کی ضرورت ہے کہ جو اس کا ہاتھ تھام کر اس کو اللہ تکے راستے پر چلنے کی تلقین و تائید کرتے رہیں۔اور اس کی شخصیت میں موجود بدیوں سے نجات حاصل کرنے سے آگاہی دے۔البتہ ایسی مجالس سے اجتناب بھی ضروری ہے کہ جن سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوانسان کی شخصیت کے نکھرنے اور بننے میں ۔بلکہ ایسی مجالس سے وقت کا ضیاع ہوتاہے اور یہ مجالس نقصان دہ ہیں۔
انسان کی زندگی میں کبھی ایسا بھی ہوجاتاہے کہ اس کو دوستوں کے مزاج کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے یعنی ایسے دوستوں کی مجالس میں بیٹھنے کا نقصان یہ ہوتاہے کہ حساب و کتاب کے روزپشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس کے برعکس اگر وہ انسان اہل اللہ کی مجالس و صحبت کو اختیار کرلے اور رسول اللہۖ سے محبت کرے اور آپۖ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو اس سے بہتر کام انجام کے لحاظ سے کوئی نہیں ہے۔قرآن کریم نے اسی کو اس طرح بیان کیا ہے کہ”ظالم لوگ اپنے ہاتھوں کو ملتے ہوئے کہیں گے کہ کاش کہ رسول کے بتلائے راستے پر چلتا ،کاش کہ میں نے فلاں فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا،تحقیق اس نے مجھے دورکردیا اس ذکر سے جو میرے پاس آیا،پس شیطان تو انسان کو ذلیل کرکے چھوڑتا ہے”۔شیطان کی تو کوشش ہوتی ہے کہ بعض دوستوں کو ہمارے سامنے اچھا بناکر پیش کرے جب کہ ہمیں ان سے دین و دنیا کے لحاظ سے کچھ بھی فائدہ نہ ہو اور وہ ہمارا سب کچھ لے جائیں۔
اس تحریر کا ماحاصل یہ ہے کہ انسان کوجہاں اس بات کے اہتما م کی ضرورت ہے کہ وہ خلوت نشینی اور انفرادی زندگی گذارنے کی بجائے زندگی کے جمیع امور میں اپنے لیے رفقاء کار کا انتظام کرے اور اجتماعی زندگی کو بسر کرنے کا اہتمام کرے اسی میں برکت بھی ہے وہیں پر انسان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے لیے دوستوں کے اختیار کرنے میں احتیاط اور حسن تدبیر سے کام لینا چاہیے تاکہ اس کی دارین کی زندگی پرمسرت ہو جائے۔