تحریر : شہزاد حسین بھٹی صحت کا شعبہ کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو علاج معالجہ سہولیات کی موثر فراہمی کے لیے بروقت اقدامات بروئے کار لائیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اس سلسلہ میں کافی شہرت کے حامل ہیں۔ ہسپتالوں کا نظام بہتر بنانے اور چیک اینڈ بیلنس میں ان کی صلاحیتوں کا متعارف ہر شخص ہے خواہ وہ ان کا حامی ہو یا مخالف ۔سال 2016-2017 کے صوبہ پنجاب کے بجٹ میں صحت کے شعبہ کی مد میں 150 بلین روپیہ مختص کیا گیا ہےـ یہ رقم پچھلے سال کے مقابلے میں تھوڑی سی زیادہ ہے لیکن اگر روپے کی قدر میں کمی کو بھی شامل کر لیں تو اس حساب سے نئے بجٹ میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں کیا گیا ہےـمختص کی گئی رقم میں سے 43 بلین کی رقم ہیلتھ ڈویلپنمٹ کی مد میں رکھی گئی ۔جو کافی عرصہ سے چلنے والے قومی صحت کے 20 پروگراموں جیسے کہ ہپیٹائیٹس، ملیریا اورتپ دق کوکنٹرول کرنے کیلئے خرچ کی جائیگی۔
ان سب رقوم کے مختص ہونے کے باوجود بدانتظامی اور وسائل کے درست استعمال کا فقدان شعبہ صحت میںجا بجا دکھائی دیتا ہے۔ شعبہ صحت کے انتظامی معاملات، سروس اسٹکچر اور سیکورٹی جیسے معاملات حل نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز ڈاکٹروں کی ہڑتالیںمعمول بن گئی ہیں۔ بھاگ دوڑ بہت دکھائی دیتی ہے لیکن عملاً آج پنجاب کے ہسپتالوں کے حالات یہ ہیں کہ انسانیت ہسپتالوں کی راہداریوںمیں سسکتی دیکھائی دیتی ہے۔اخبارات میں دیوہیکل اشتہارات کے باوجود نہ ہسپتالوں میں ادویات ہیں اور نہ مطلوبہ ڈاکڑز۔ جو ہیں وہ بھی اپنا کام احسن طریقے سے انجام دینے سے قاصر۔مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق بھی خبروں کی حد تک محترک ہیں ۔ عملاً کو کارکردگی دیکھائی نہیں دیتی۔ایک ڈینگی مچھر تو ابھی تک قابو میں نہیں آیا۔
محکمہ صحت میں تعینات بعض افسران اور عناصروزیر اعلیٰ کی گڈ گورنس کو داغ دار کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے انہی افسران کی نا اہلیت ، کرپشن گڈ گورنس کے دعوئو ں کو داغدار کرتی نظر آتی ہے اور عوام الناس میں شدید مایوسی کی لہر پیدا ہوتی ہے۔ آئے روز ایسے اداروں ، ہسپتالوں کے افسران کے قصے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں جو صوبائی حکومت کی بدنامی کا باعث ہوتے ہیں۔
Attock Hospital
کچھ ایسا ہی کردار ضلع اٹک کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال حسن ابدال کے نا تجربہ کار اور نااہل ایم ایس آصف نیازی کا ہے جو کہ نہ ہی اپنے سٹاف بلکہ عوام الناس ، مریضوں کو سہولیات پہنچانے اور ہسپتال کی کارکردگی بہتر بنانے میںبری طرح ناکام ہیں۔ اور ان کے اقدامات نے مریضوں کے لیے اتنی مشکلات پیدا کر دی ہیں کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ موصوف نے ہسپتال میں قائم ویکسینشن ڈیسک کی ایوننگ شفٹ پر نامولود بچوں اور حاملہ خواتین کو ویکسین لگانے کے لیے ایک سینٹری ورکر کو تعینات کر دیا ہے۔ جس کا کام صفائی کرنا ہے اور وہ ویکسینیشن جیسے حساس معاملات کی مہارت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے ہزاروں انسانی زندگیاں دائو پر لگ گئی ہیں۔
ہسپتال میں صفائی کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔ ایم ایس نے ہسپتال کو اپنی پیدا گیری کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ پرچی فیس ، ایکسرے ، لیبارٹری ، لڑائی جھگڑے کے کیسوں ، میڈیکل سرٹیفکیٹوں کے اجرائ، حتی کہ سٹا ف ممبران کو چھٹی لینے کے عوض بھی چمک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ من پسند لیڈیز سٹاف کے ساتھ خوش گپیوں اور بعض اوقات سوشل میڈیا پر مصروف ایم ایس کو جب میڈیا نمائندوں اور مریضوںنے ان مسائل سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو ان کا رویہ انتہائی نامناسب تھا اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ان معاملات کو بہتر جانتے ہیں کسی کو ان کو مشورہ اور تجاویز دینے کی ضرورت نہیں۔
خادم اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق کو مشورہ ہے کہ ایسے حساس ہسپتال میں جو دو صوبوں کے چار اضلاع کے سنگم پر واقع ہے اور روزانہ OPDمیں آنے والے مریضوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے میںکسی تجربہ کار شخص کو ایم ایس تعینات کیا جائے جو کہ مریضوں کو بہتر سہولیات پہنچانے کے علاوہ ہسپتال کے معاملات بہتر طور پر سرانجام دے سکے اور ہسپتال سٹاف کے ساتھ مل کر کارکردگی کو بہتر بنائے تاکہ نوبت دھرنوں تک نہ پہنچے۔