تحریر : صادق رضا مصباحی آج ہم میں سے ہر انسان بڑا آدمی بننا چاہتا ہے اور بڑا آدمی بننے تک اسے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور کیسے کیسے جتن کرنے پڑتے ہیں یہ تووہی بتا سکتے ہیں جنہیں آج بڑا سمجھا جاتا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ آج ہر آدمی پر بڑے بننے کی جتنی دُھن سوار ہے ، اگر اس میں سے نصف فیصد بھی اچھا آدمی بننے کی دُھن سوار ہوتی توآج ہمارا معاشرہ بیمارنہ کہلاتا اور معاشرے کا امن و امان غارت نہ ہوتا۔ یہاں پر بس ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے کہ اچھاآدمی بننے کاسوداانہی خوش نصیبوں کے سروں میں سمایا ہوتا ہے جنہیں بارگاہ الٰہی سے خاص توفیق ارزاں ہوتی ہے۔
ہمارے دین ہمیں اصولاًاچھاآدمی بناناچاہتاہے، بڑاآدمی نہیںکیوں کہ دنیا کے لیے مطلوب انسان اچھاآدمی ہے ، بڑا نہیں ۔اچھے آدمی کی فطرت جوکام اس سے کرواسکتی ہے وہ بڑے آدمی سے نہیں کرواسکتی ۔اس ضمن میں یہ مت بھولیے کہ اچھاآدمی ہی صحیح معنوںمیںبڑاآدمی ہوتاہے اورجواچھاآدمی نہیں بن سکتاوہ کبھی بھی بڑا نہیں بن سکتا۔عام طورپردیکھنے میں آتاہے کہ آدمی توبہت بڑاہے مگراس کااندرون بہت چھوٹاہے بلکہ بونا ہے۔
آنکھ اگر بینا ہو تواِدھراُدھردیکھیے ،آپ کوبہت سے بڑے بڑے آدمی نظرآئیں گے مگران میں اتر تھوڑی دیرقیام کرکے دیکھ لیجیے توان سے آپ کوگھن آنے لگے گی ۔ہم میں سے نہ جانے کتنے ہیں کہ جن کی ذات پرشخصیت کاخول چڑھاہواہے مگرجس وقت یہ خول اترتاہے تومنظرنامہ بڑاکریہ نظرآتاہے اورماحول ایساتعفن زدہ ہو جاتاہے کہ ناک پرکپڑارکھتے ہی بنتی ہے اورانسان راہ فرارتلاش کرتانظرآتاہے ۔ عقلاکہتے ہیں کہ انسان کی اصل شخصیت وہ نہیں ہے جوعوام میں ہوتی ہے اورجومجلسوں اوردوستوں میں ہوتی ہے بلکہ انسان کی اصل شخصیت وہ ہے جب وہ تنہائی کے عالم میں ہوتی ہے یعنی انسان کی شخصیت باطن سے سنورتی ہے ،باطن سے نکھرتی ہے اورباطن سے بام عروج پرپہنچتی ہے اورایسے ہی شخصیات کی محبت اورمقبولیت اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔
اس سے ایک نکتہ سمجھ میں آیاکہ اچھاآدمی دلوں کے تخت پربیٹھ کرراج کرتاہے اوربڑاآدمی صرف زبانوں پر سفر کرتا رہتا ہے اوریوں ایک دن تاریخ کے قبرستان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتاہے اورایسادفن ہوتاہے کہ پھرکوئی زبان اس کے ذکر سے تر نہیں ہوتی اورنہ ہی کوئی آنکھ نم ۔ہم نے بہت سے بڑے ایسے بھی دیکھے ہیں کہ جنہیں اچھاسمجھاجاتاتھا لیکن جب ان کی شخصیت سے پردہ سرکاتوسارایقین ،اعتماد،محبت ،اورعقیدت ایک دم سے متزلزل ہوگئی اورایسے لوگوں کے نام سے ہی ہمارے مزاج کاجغرافیہ بگڑنے لگا۔ ایک بات ہمیشہ پلوسے باندھ لیناچاہیے کہ ہم بظاہرکتنے ہی اچھے ہوں ،لوگوں میں ہمارے نام کاغلغلہ بلندہورہاہو، ہمارے نظریات کاطوطی بولتاہواورہم شہرت وعظمت کا جھولا جھول رہے ہوں لیکن اگر ہمارا باطن ہمارے ظاہرکے مطابق نہیں ہے اورہماراحال ہمارے قال کی تائیدنہیں کرتاتواللہ تعالیٰ ایک دن ہماری اصل شناخت لوگوں کوبتادیتاہےاور حالات کچھ ایسی سمت اختیارکرلیتے ہیں کہ سات پردوں کے اندربھی چھپی ہوئی ہماری برائی یعنی ہماری اصل شخصیت سامنے آجاتی ہےاوریوں ہماری عزت ،ذلت میں تبدیل ہونے لگتی ہے ۔ایک حدیث نبوی میں بھی یہ بات کہی گئی ہے۔
فی الوقت مجھے اس کااصل متن تویادنہیں البتہ اس کا مفہوم یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرنے سے قبل انسان کاباطن آشکارکردیتاہےاورلوگو ںپراس کی اصل حقیقت ظاہرہوجاتی ہے ۔حدتواس وقت ہوجاتی ہے کہ جب اس کی شخصیت کے غلیظ اور بدبودار پہلوئوں کو کوئی من چلااوردِل جلاتحریری شکل میں سامنے لے آتاہے اوربڑے انسان کی شخصیت کاحلیہ ہی بدل کررکھ دیتا ہے۔
Allah
ہمیں چاہیے کہ ہم بڑاآدمی بننے کے بجائے اچھاآدمی بننے کی کوشش کریں اورجب ہم اچھے بن جائیں گے توخودبخود اللہ تعالیٰ ہمیں بڑابنادے گااورہمیں بڑابننے کے لیے سوسوجتن کرنے ،منافقت کرنے ، باطن کوچھپانے اورتکلف کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔یادرکھیے ،بڑاآدمی عموماًتکلف کے ساتھ جیتاہے جب کہ اچھاآدمی فطری زندگی کے مزے لیتاہے ۔آئیے ایک باراپنے اندرچھپے بیٹھے انسان سے پوچھ لیں کہ ہمیں فطری زندگی پسندہے یا غیر فطری زندگی یعنی ہم اچھا آدمی بننا چاہتے ہیں یا بڑا۔