تحریر : نعیم الرحمان شائق اسلام کو سمجھنے کے دو بنیادی ذرائع ، قرآن حکیم اور احادیث ِ مبارکہ ہیں ۔ یعنی کتاب و سنت ۔ اگر ہم ان دونوں ذرائع کا بہ خوبی مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم ، آج کل کے اس مادی دور میں ، شاید ہی عملی مسلمان ہوں ۔ ‘عملی’ کیا ، ہم تو’علمی’ مسلمان بھی نہیں رہے ۔یعنی ہم اپنے دین کو جانتے ہی نہیں ہیں ۔ جب جانتے ہی نہیں ہیں ، تو عمل کیوں کر ہوگا ۔ ایک دور تھا ، جب عوام کے لیے اسلامی تعلیمات کو سمجھنا از حد مشکل تھا ۔ لیکن اب سچے علما کی محنتوں اور کوششوں سے یہ مشکلا ت خاصی آسان ہو گئی ہیں ۔جدید دور نے اور بھی آسانیاں پیدا کرد ی ہیں ۔ عام لوگ عربی نہیں سمجھتے ، لیکن اردو سمجھ لیتے ہیں ۔ قرآن ِ حکیم اور احادیث ِ مبارکہ کے آسان ترجمہ شدہ نسخے آسانی سے بازار میں مل جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی ویب سائٹیں بھی بن چکی ہیں ، جن کی مدد سے ہم بہ آسانی دین ِ اسلام کو سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے ذوق و شوق کی ضرورت ہے ، جو فی الوقت ہماری قوم میں معدوم ہے۔
قرآن ِ حکیم ہمیں اعلیٰ اخلاق کی دعوت دیتا ہے ۔ اخلاق ِ حسنہ کی تلقین کرتا ہے ۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کئی پہلو ایسے ہیں ، جن میں ہمیں اخلاق ِ حسنہ سے کام لینا ہوتا ہے ، لیکن ہم نہیں لیتے ۔ جس کی وجہ سے غیروں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ مسلمان ایک اخلاق سے گری ہوئی قوم ہے ۔ اگر ہم قرآن ِ حکیم میں بتائی گئی اچھی باتوں کو اپنی زندگی کا شعار بنا لے تو درحقیقت ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے ۔ قرآن حکیم اور احادیث ِ مبارکہ ہمیں بہت سی اچھے باتوں کی تلقین کرتے ہیں ۔ احادیث اچھی عادتوں کی بابت کیا کہتی ہیں ، اس پر ان شاء اللہ ، پھر کبھی نظر کریں گے ۔ فی الحال قرآن ِ حکیم کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں۔
1۔ “کہہ دو آؤ میں تمہیں سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے، یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور تنگدستی کے سبب اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں اور انہیں رزق دیں گے، اور بے حیائی کے ظاہر اور پوشیدہ کاموں کے قریب نہ جاؤ، اور ناحق کسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے، (اللہ) تمہیں یہ حکم دیتا ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔ اور سوائے کسی بہتر طریقہ کے یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے، اور ناپ اور تول کو انصاف سے پورا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب بات کہو تو انصاف سے کہو اگرچہ رشتہ داری ہو، اور اللہ کا عہد پورا کرو، (اللہ نے) تمہیں یہ حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔” (سورۃ الانعام ، آیات نمبر 151 اور 152)
Holy Quran
2۔ ” اور رحمنٰ کے بندے وہ ہیں جو زمین پردبے پاؤں چلتے ہیں اورجب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے۔”” اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔” ” اور جو بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے، اور جب بیہودہ باتوں کے پاس سے گزریں تو شریفانہ طور سے گزرتے ہیں۔”(سورۃ الفرقان ، آیات نمبر 63، 67، 72) 3۔ ” بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سو اپنے بھائیوں میں صلح کرادو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔”
” اے ایمان والو! ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھا کریں کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو، فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں، اور جو باز نہ آئیں سو وہی ظالم ہیں۔” ” اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں، اور ٹٹول بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔”
ALLAH
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔”سورۃ الحجرات ، آیات نمبر 10، 11،12، 13 ان آیات کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات میں اچھی اچھی باتوں کی تلقین کی گئی ہے ۔ لیکن طوالت کا خوف ہے ۔ سو اسی پر اکتفا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنی اخلاقیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)۔
تحریر : نعیم الرحمان شائق ای میل:shaaiq89@gmail.com