اعلیٰ عسکری تربیت سے لیس، عظیم مفکر ارسطو سے ذہنی تربیت اور ہومر کی شاعری سے بصیرت حاصل کرنے والے سکندرِ اعظم نے اپنی گیارہ سالہ عسکری زندگی میں کبھی شکست کا منہ نہ دیکھا۔ وہ ہمیشہ اپنی فوج کی کمان خود کرتا اور کبھی اپنے فوجیوں کو ایسا خطرہ مول لینے کے لیے نہ کہتا جس سے وہ خودنہ گزر سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جنگجو سکندر کئی مرتبہ زخمی بھی ہوا۔ جب سکندر کی فتوحات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا تو ایرانی شہنشاہ نے اسے پیغام بھیجا کہ وہ اپنی نصف سلطنت کے عوض اُس سے امن معاہدہ کرنے کو تیار ہے۔ تب سکندر کے قریبی دوست اور سالار ”پارمینیو” نے کہا ”اگر میں سکندر ہوتا تو یہ پیشکش فوراََ قبول کر لیتا۔
سکندر نے مسکرا کر کہا ”ہاں میں بھی قبول کر لیتا، اگر میں پار مینیو ہوتا۔ ہمارے سپہ سالار، گہرے مطالعے کے شوقین، سیاسی بصارت کے حامل اور فلسفیانہ سوچ رکھنے، اگلے مورچوں پر بار بار جانے اور شہداء سے والہانہ محبت رکھنے والے محترم جنرل اشفاق پرویز کیانی اگر چاہتے تو پیپلز پارٹی کے بد ترین دَورِ حکومت میں کسی بھی وقت جمہوریت کی بساط لپیٹ سکتے تھے لیکن لوگ چھ سال تک انتظار ہی کرتے رہے اور جنابِ شیخ رشید نے تو مایوس ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ فوج ستو پی کر سوئی ہوئی ہے۔جنرل کیانی بھی یقیناََ جمہوریت کی بساط لپیٹ دیتے اگر وہ شیخ رشید ہوتے۔
پیپلز پارٹی کی بد ترین جمہوری آمریت میں کالم نویسوں نے کالموں کی بھرمار کر دی، تجزیہ نگار پوری قطعیت کے ساتھ حکومت کے خاتمے کی تاریخ پہ تاریخ دیتے چلے گئے اور میموگیٹ سکینڈل کے بعد تو جنابِ آصف زرداری نے بھی ایوانِ صدر میں کئی راتیں اِس خوف کے تحت جاگ کر گزار دیں کہ نہ جانے کب فوجی بوٹوں کی گونج سے ایوانِ صدر کی راہداریاں گونج اُٹھیں لیکن ”آرمی ہاؤس” میں گھمبیر خاموشی ہی طاری رہی۔ یہ بجا کہ اب بھی آسمان کی وسعتوں کو چھوتی مہنگائی، بد امنی، دہشت گردی، خود کش حملے اور بم دھماکے جاری ہیں اور حکمرانوں کے پاس قوم کو دینے کے لیے بھوک ننگ کی ”سوغات ” کے سوا کچھ بھی نہیں، پھر بھی فضائے بسیط میں اُمیدوں کے دیئے ٹمٹمانے لگے ہیں اور برملا کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی یہ ساتویں بڑی طاقت خراماں خرا ماں جمہوریت کے زینے طے کرتی جا رہی ہے۔
یقیناََ اذہان و قلوب کو بتدریج مسخر کرنے والے اِس جمہوری انقلاب کا سہرا جنابِ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سَر ہے جنہوں نے جمہوریت کی مضبوطی کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ یہ جنرل صاحب کا جمہوریت سے لگاؤ ہی تھا جو قوم کو 2013ء کے انتخابات تک لے گیا اور خائنوں، بددیانتوں اور کرپشن کے مگر مچھوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کا سبب بنا۔ فوج پر تنقید ہمیشہ لکھاریوں کے لیے شجرِ ممنوعہ رہی لیکن کیانی صاحب کے دَور میں لکھاریوں نے افواجِ پاکستان اور ایجنسیوں کے خلاف خوب قلم گھسیٹے۔ دراز ہوتی زبانوں سے متواتر نکلنے لگا کہ اگر فوج نے اقتدار سنبھالا تو قوم، میڈیا، وکلاء اور سول سوسائٹی سڑکوں پر نکل آئے گی۔ انہی دنوں میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ فوج کے آنے پر اُسے بہت سے حواری سیاستدان بھی مل جائیں گے اور دس بار وردی میں منتخب کروانے والے بھی لیکن جنرل صاحب اِس سے بدتر حالات میں بھی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کو تیار نہیں ہونگے کیونکہ جو جمہوریت کو ماں بن کر جوان کرنے کی تگ و دو میں ہو وہ اپنے ہاتھوں سے اُس کا گلا کیسے گھونٹ سکتا ہے۔ آج وقت نے ثابت کر دیا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب نے جو کچھ کہا اُسے سچ کر دکھایا۔
Nawaz Sharif
ہمارے کچھ لکھاری اور تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ طرح طرح کی مو شگافیاں کر کے ہی اُن کا صحافتی قد اونچا ہو سکتا ہے۔ اُن کی سوچ اور اپروچ ہمیشہ منفی ہی رہتی ہے اور وہ قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے ہی ایک صاف صاف لکھنے والے لکھاری کا کالم پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خارجہ، داخلہ، دفاع اور دیگر امورِ مملکت افواجِ پاکستان ہی کے ذمے ہیں۔ وہ فرماتے کہ جنرل راحیل شریف کو کئی چیلنج درپیش ہیں۔ پہلا چیلنج نواز شریف سے تعلقات ہے کیونکہ ”تاریخ کا سبق یہی ہے کہ فوجی سربراہوں کے ساتھ میاں نواز شریف کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ اگر موصوف تعلقات کی اِس نا خوشگواری کے اسباب بھی بیان کر دیتے تو قوم اُن کی ممنون ہوتی۔ ویسے موصوف یہ تو جانتے ہی ہونگے کہ آئینی تقاضوں اور اپنے حلف کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایک آرمی چیف حکومتِ وقت کو عسکری معاملات میں رائے تو دے سکتا ہے، مجبور نہیں کر سکتا اور جمہوری تقاضہ بھی یہی ہے کہ آرمی چیف حکومتِ وقت کے احکامات کی بجا آوری کرے۔
دوسرا چیلنج دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نپٹنا ہے، فوج کی قُربانیوں کا اعتراف نہیں کیا جا رہا اور اِس معاملے میں قوم بد ترین کنفیوژن کا شکار ہے۔ ویسے اگر طبع نازک پہ گراں نہ گزرے تو اِس کنفیوژن کو پیدا کرنے اور پھر اُس کو ہوا دینے والے بھی موصوف خود ہی ہیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ ہندوستان سے کشیدگی اور امریکہ افغانستان کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کے بارے میں فوج اور سول قیادت کی سوچ میں ہم آہنگی نہیں، بعد المشرقین ہے۔ عدلیہ اور میڈیا کی فعالیت کی بنا پر فوج اور میڈیا میں چپقلش ہے۔
مشرف کا مقدمہ اور مسنگ پرسنز تناؤ کا موجب ہیں اور پارلیمنٹ اپنی بالا دستی کی کوشش میں عسکری اداروں کے روایتی کردار کو محدود کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ محترم لکھاری نے جن چیلنجز کا ذکر کیا ہے اُن سے نپٹنا حکومتِ وقت کا کام ہوتا ہے فوج کا نہیں اور اگر یہ سب کچھ فوج نے ہی کرنا ہے تو پھر اِس جمہوری حکومت پر اربوں روپے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف شاید ذہنی طور پر صرف مارشل لاء کو ہی پسند کرتے ہی اُنہوں نے لسانی تعصب کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ چونکہ جنرل راحیل ”شریف ” بھی ہیں اور لاہوری بھی اِس لیے شریف برادران کا حسنِ انتخاب ٹھہرے۔ محترم دور کی کوڑی لاتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ شریف برادران جنابِ پرویز کیانی کو پرویز مشرف کے گروپ کا ہی سمجھتے رہے اسی لیے جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کا وقت آنے تک پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرنے سے گریز کیا جاتا رہا۔ شاید موصوف مرضِ نسیاں میں مبتلاء ہیں جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ میاں نواز شریف کے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے بھی پہلے جنرل کیانی میاں صاحب سے ایک طویل ملاقات کر چکے تھے اور وزارتِ عظمیٰ کے بعد تو جنرل صاحب اور میاں صاحب کے درمیان کئی خوشگوار ملاقاتیں ہوئیں۔
رہی پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے کی بات تو کیا موصوف نہیں جانتے کہ FIA کی کمیٹی گزشتہ تین ماہ سے مشرف کے خلاف انکوائری کر رہی تھی اور اُس وقت جنرل کیانی ہی چیف آف آرمی سٹاف تھے جنہیں اعتماد میں لیا جا چکا تھا۔ ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ پرویز مشرف میجر شبیر شریف شہید کے کلاس فیلو اور قریبی دوست تھے اور اُنہوں نے ہمیشہ جنرل راحیل شریف کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھا۔ اگر میاں برادران یہ سمجھتے کہ پرویز مشرف کے کیس میں فوج کی طرف سے مداخلت کا کوئی خطرہ ہے تو وہ کم از کم جنرل راحیل شریف صاحب کو تو کبھی آرمی چیف نہ بناتے۔