تحریر : شاہ بانو میر کرو مہربانی تم اہلَ زمین پر خدا مہربان ہو گا عرشَ بریں پر اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس کسی نفس کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ اس کو کسی کی سفارش کوئی فائدہ دے گی اور نہ لوگوں کو (کسی اور طرح سے کوئی ) مدد مل سکے گی سورۃ البقرہ 123 اس آیت کا مفہوم قیامت تک ادوار بدلنے کے باوجود ہر دور میں سمجھا جا سکتا ہے دنیا کی ترتیب اللہ پاک نے خاص انداز میں کی اور اسکو آسان انداز میں سمجھانے کیلئے قرآن پاک کا نزول کیا ضرورت صرف دلوں پر لگے زنگ کو اتار کر اسکو مصفا کرنے کی ہے۔
آیئے ایک مثال سے اس بات کو سمجھتتے ہیں بھلاٰئی کی مثال ہے فرض کیجیئے کوئی بچی دیارَ غیر میں پڑہنے آتی ہے یہاں آکر اسے پتہ چلتا ہے کہ اسکے پیپرز ٹھیک نہیں غریب گھر سے تعلق ہے بڑی مصیبتوں سے وہ گھر کیلئے ایک عزم لے کر نکلتی ہے اسکی دوست اسکو پریشان حال دیکھتی ہے وہ دوست یہاں پلی بڑہی اور یہاں کے ماحول کو طریقے کو بہترین انداز میں سمجھتی ہے وہ اسے پریشان دیکھ کر مشورہ دیتی ہے کہ محفوظ ہو کر اطمینان سے جد وجہد کرنے کیلئے بہتر ہے کہ تم شادی کر لو اور پھر باقی مساٰل سے نمٹو۔
Community
کمیونٹی نام ہے بھائی چارے کا جس میں تمام گھریلو سطح پر رہنے والے ایک دوسرے سے غابانہ کسی نہ کسی طرح رابطے میں رہتے ہیں اور بیٹیوں بیٹوں کے رشتے کیلئے بھی ایک دوسرے کو کہا جاتا ہے بچی اپنی دوست کو شاٰد حامی بھرتی ہے اور اسکی دوست اس کے لٰے کسی اچھے گھر کے ایک شریف خاندانی لڑکے کو کہتی ہے وہ لڑکا شریف اور تابعدار والدین کا وہ اکیلا نہیں جاتا اور گھر کی بڑی کو کہتا ہے جب وہ ملتی ہں تو بچی کہتی ہے کہ شادی نہیں کرنا چاہتی میں جاب اور پڑہاٰئی کرنا چاہتیہوں آپ مدد کریں وہ خاتون اس کو کہتی ہیں کہ آپ نمبر دے دیں اگر ممکن ہوا تو ضرور اطلاع دوں گی نہ پہلے نہ بعد میں۔
کوئی کسی قسم کا رابطہ ہوا مصروفیت میں وہ خاتون بھی بھول گٰئیں کچھ عرصے بعد وہ بچی جہاں رہ رہی تھی وہاں سے کسی ایک سیاسی رہنما کے گھر آگٰئی سیاسی رہنما نے یہ بات اپنی سیاسی میٹنگ میں شاٰد ذکر کر دی بس پھر کیا تھا اس بچی کو سیاست کی بھینٹ چڑہا دیا گیا ان کو کہا گیا کہ بچی سے ملوایا جاٰئے ان کی اچھاٰئی اور ان کی بھلائی یوں مشتہر ہو انہیں اچھا نہیں لگا ان کا کہنا تھا وہ ان کی بیٹی کی حیثیت سے ان کے گھر میں ہے ان کی عزت ہے سبحان اللہ بے یارو مددگار بچی کو اللہ پاک نے پردیس میں خوشحال گھرانہ بھی دے دیا۔
Goodness
اور ساتھ ہی ساتھ والدین جیسی شخصیات اور بہن بھائی بھی یہی ہے اللہ کی قدرت کہ وہ اندھیرے میں یونہی اجالا کرتا ہے مثال ختم ہو گٰی اب سوچٰئے مثال ایک ہے اس میں کردار کتنے ہیں ایک وہ بچی جو دیارَ غیر میں کسی بھی وجہ سے کسی دشواری میں مبتلا ہے پھر وہ اسکی اچھی دوست جس نے اسکو محفوظ کرنے کیلئے اس کی حلال اسلامی انداز میں بھلائی سوچی پھر وہ بچہ جو اکیلا جا کر مل سکتا تھا لیکن ماں کا حکم تھا کہ بڑی کسی کو ساتھ لے کر جانا۔
وہ خاتون جووقت نکال کر صرف اس سوچ کے تحت اس بچے کی والدہ کے کہنے پروقت نکال کر وہاں گئی تا کہ اسلام کے عین مطابق اگر ممکن ہو تو اچھا فعل ہو سکے اس بچی کی پریشانی اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی پھر قدرت ایک سیاسی رہنما سے اس بچی کا والد مدد کی درخواست کرتا ہے اور یوں اللہ پاک نے اس سیاسی رہنما کورحمت بنا کربھیجا آج وہ بچی عزت کے ساتھ ان کی بیٹی بن کر اپنا تعلیمی سفر شروع کر چکی ہے × اس بچی کی بھلاٰئی کیلئے جو جو کوئی کر سکا اس نے کیا اللہ پاک ان سب کو اجر عطا فرماٰئے دیارَ غیر میں ہمیشہ ایسے واقعات کو دیکھیں تو کسی الزام سے ڈر کر نہ گھبرایئں اپنی کوشش جاری رکھیں قرآن یہی کہتا ہے۔
الحمد للہ آج وہ بچی منزل پر پہنچ گئی اللہ پاک اس بچی کو کامیابی عطا فرمائے اور مقصد کو حاصل کر کے اپنے مساٰل کو حل کرنے والا بنئے آمین بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو اور بھلائی کا بدلہ آپ نے اللہ پاک سے لینا ہے حق راستے کو چھوڑیں گے تو گمراہی کے راستے پر پڑیں گے سورت الیونس بلکہ اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے مصیبت میں مبتلا انسانوں کی مدد کریں یہی ہے انسان کا مقصد اور انسانیت یورپ میں وقت بہت قیمتی ہے۔
Human Life
لیکن انسانی زندگی اس سے بھی قیمتی ہے سوچئے اگر آج وہ بچی کسی گھر کی چھت تلے نہ ہوتی تو یہاں اس کا کیا حال ہوتا اس نیکی کا صلہ دنیا سے کبھی نہ مانگیں اللہ پر چھوڑ دیں اور اللہ پاک ہدایت کا سفر لے آتا ہے ‘ آپ قرآن پاک کا سفر شروع کریں اور آپکو مخالفت کا سامنا نہ کرنا مپڑے یہ ہو نہیں سکتا جتنی آپ کی مخالفت اتنا اللہ کا شکر کریں کہ آپ سنت پر ہیں اللہ پاک نے اپنے ہر پیارے بندے کو دنیا کی سخت مخالفت کی صورت آزماٰئش عطا کی یہی سنت ہے تو تبدیلی کیسے ہو سکتی ہے؟۔
خوش نصیب ہیں جو اس سفرکو سمجھ کر دنیا کی رنگینیاں چمک دمک چھوڑ کر سادہ اور خوبصورت زندگی کا آغاز کرتے ہیں ‘ دنیا ایک اندھا کنواں ہے جس میں بظاہر روشنائی اور کامیابی ہے مگر ہر کامیابی مصنوعی ہو جاتی جب آپ حق سچ تعلیم کی صورت قرآن سے حاصل کرتے ‘ پھر زندگی اپنے آپ پر غور کر کے اصلاح کرنے میں گزرتی ہے ‘ اور دوسروں کے لئے ہمیشہ فلاح کا باعث بنیں اور یہی واحد راستہ ہے جس کا صلہ دنیا نے نہیں آخرت میں ملنا ہے اور آخرت ہی منزلَ مقصود ہے ‘ فرشتوں سے بہتر ہے انساں ہونا مگر اس میں لگتی ہے محنت۔