اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی حکومت ٹیکس کے شعبے میں باقاعدگی لانے کے ایک منصوبے کے تحت 550 مصنوعات میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمدپر سے رعایتی نرخ فراہم کرنے کی سہولت واپس لینے کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔
مذکورہ درآمدی اشیا میں دواؤں سے لے کر الیکٹرونک کے سامان تک سبھی کچھ شامل ہے۔ امکان ہے کہ یہ حکومتی اقدام مینوفیکچررز اور صارفین دونوں کیلیے یکساں ناقابل قبول ہو گا۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے منگل کوایس آراو 565 اور 567 کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ایک مطالعے کے مطابق اس وقت 86 فیصد رویتی محصولات کا طریق کار ایس آراوزکے تحت ہی چلایا جارہاہے۔ جبکہ کل برآمدات کا 46 فیصد حصہ بھی انھی کے دست نگرہے چنانچہ کسی بھی نئے کھلاڑی کے لیے میدان میں موجود گھاگ کھلاڑیوں کامقابلہ کرنا عملاً ناممکن ہے۔ اکثر اشیا پرسے ٹیکس میں چھوٹ ختم کرنے کی ان تجاویزپر غور اسحاق ڈار کی صدارت میں ایک کمیٹی نے کیاجس میں منصوبہ بندی، ترقی واصلاحات، تجارت، ٹیکسٹائل انڈسٹری اوربورڈآف انویسٹ منٹ کے چیئرمین شامل تھے۔
حکومت کو اپنے اس اقدام سے 40 بلین روپے کی آمدنی کی توقع ہے۔ تاہم ایف بی آر کی اس تجویز پرانجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈاور وزارت تجارت کے تحفظات سامنے آنے پر کمیٹی اس کی منظوری نہیں دے سکی۔ اس سلسلے میں چیئرمین ایف بی آرکا کہنا ہے کہ وزیراعظم وطن واپسی پر اس کی منظوری دے دیں گے۔
مذکورہ ایس آراوز کے تحت جن اشیاکے نرخوں پر رعایت دی جاتی ہے ان میں ایئرکنڈیشنر، ڈیپ فریزر، واشنگ مشین، اسٹیشنری آئٹم، چمڑے کی مصنوعات، سرامکس، سی این جی کٹس، دفاعی سازوسامان کا خام مال الیکٹرونک بلب، تازہ پھل، گندم، گنا، ہائی اسپیڈ ڈیزل، پولٹری سیکٹر کا سامان، خام لوہا، نٹنگ مشین، کیمیکلز، سونا، چاندی، پلاٹینم، سرجیکل گڈز، ایئرکرافٹ انجن، ایمبولینس، ڈمپرٹرک، ٹریکٹر، یارں مصنوعات، خام پام آئل، ادویہ سازی کا خام مال شامل ہے۔ میٹنگ میں شریک ایک شخصیت نے بتایا کہ حکومت یہ رعایت صرف مستحکم صنعتوں سے واپس لے گی۔ چھوٹی اور نوزائیدہ صنعتوں کا تحفظ کیاجائے گا۔
ماہرین کے مطابق اگر حکومت نے جنرل کسٹم ڈیوٹی کے نفاذ کی کوشش کی تو تمام مصنوعات کی قیمتوںاور افراط زرمیں غیرمعمولی اضافہ ہوگا جبکہ بعض صنعتیں مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنا مقام کھوسکتی ہیں۔ وزارت خزانہ کے ایک ہینڈ آؤٹ کے مطابق وزیرخزانہ نے ایف بی آر کو تاکید کی کہ جن مراعات کا تعلق عام آدمی سے ہو انھیں واپس نہ لیا جائے اور نہ ہی ان کا اثر نئی سرمایہ کاری پرپڑے۔ حکام کے مطابق اس کے نفاذکا امکان 2014-15کے بجٹ سے ہے۔