تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی عطر والے کے پاس بیٹھیں گے تو آپ سے خوشبو ہی آئے گی اور اگر کسی کوئلہ فروخت کرنے والے کے پاس سے بھی گزریں گے تو اپنا دامن بچا کر گزریں گے، اسی طرح اگر آپ کسی بُرے شخص کی صحبت میں بیٹھیں گے تو آپ سے برائی ہی سرزد ہوگی،گو کہ آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے مگر صحبت کی تاثیر سے آپ غلطی کے مرتکب شمار ہونگے،بسا اوقات انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے تجربہ کی بناء پر دوسروں کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ انسان اگر خود غلط نہ ہو تو کوئی اسے غلط نہیں بنا سکتا یا یوں کہہ لیجئے کہ صحبت تاثیر اس پر اثر انداز نہیں ہوتی،یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر واسطہ ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جو آپ کی عقلکے بند دریچے کھول دیتا ہے،ویسے تو انسان ہمیشہ تجربوں کی زد میں رہتا ہے اور ان ہی تجربوں سے حاصل کر دہ نتائج انسان کو عقلی طور پر مضبوط کرتے ہیں اور بندہ آئندہ کیلئے محتاط ہو جاتا ہے،دھوکہ دینا،فراڈ کرنا،جھوٹ بولنا کوئی نئی بات نہیں،ضمیروں سے کھیلنے والے عرصہ دراز سے دھوکہxفراڈ=جھوٹ والے فارمولہ کے تحت اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے آئے ہیں،لیکن اپنی ان قبیح عادتوں کے باوجود دوسروں کو کوئی نقصان نہیں دے سکتے ،کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتا ہے وہ اس میں خود دفن ہوتا ہے ،لیکن عقل کے اندھے ان تمام باتوں سے عاری اپنی ہی دھن میں مگن دوسروں کے جذبات و احساسات سے کھیلنے میں مگن رہتے ہیں۔
اشفاق احمد مرحوم کہتے ہیں کہ بابے وہ ہوتے ہیں جو اپنے علم و عمل،کردار ،محبت،اخلاص سے دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں اور تجربہ یہ کہتا ہے کہ دشمن بھی بابے ہوتے ہیںکیونکہ وہ بھی اپنے عمل سے دوسروں کے سیکھنے کا ساماں مہیا کرتے ہیں جو متاثرہ شخص کو سیکھنے اور اس کا کردار بنانے میں کرامت ثابت ہوتے ہیں اس ملک کے سیاستدانوں سے کیا گلہ کریں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،ظلم کرے خود اور نام بُرا سیاستدانوں کا یہ کہنا بھی بے جا نہ ہے کہ ناچ نہ جانے آگن ٹیڑھا ،یہ وہ مثالیں ہیں جو اس بات کی عکاس ہیں کہ جیسی عوام ہوگی ویسے ہی حکمران ہونگے،جھوٹے وعدے ایک آدمی دوسرے آدمی سے بھی کرتا ہے اور ایک بادشاہ اپنی رعایا سے بھی لیکن نقاب پوش عناصر ان تمام باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی پذیرائی پر پھولے نہیں سماتے ہیں اور من ہی من میں لڈو پھوٹتے ہونگے۔
لیکن یہ تو تصویر کا ایک رُخ ہے جو صرف ظالم کو دکھائی دیتا ہے کیونکہ ظالم کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیںجس طرح صحبت کی تاثیر ہوتی ہے باعین اسی طرح ظلم بھی تاثیر رکھتا ہے اور ظلم کی تاثیر یہ ہے کہ اسکی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں اور وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں پایاجبکہ آنکھ تودیکھتی ہے اورپرکھتی ہے،کسی نے کیا خوب کہا کہ کئی لوگ مل کر ایک آدمی کو زیادہ دیر تک بے وقوف بنا سکتے ہیں مگر ایک آدمی زیادہ دیر تک کئی لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتا پر عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ شہرت یا عہدہ سر کو چڑھ جائے تو دماغ خراب ہو جاتا ہے اور بندہ لپاتیاں مارنے لگتا ہے،قارئین کی دلچسپی کیلئے ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب کلاہ بازیاں سے ایک اقتباس پیش نظر ہے ،،ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ کالم نگار کیلئے کالم شروع کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔
Writing
جتنا قاری کیلئے اسے ختم کرنا ،ایسے ہی روزانہ کالم لکھنا کبھی کبھی کالم لکھنے سے بہت آسان ہے،جیسے کسی ایک مدیر سے کسی نے کہا کہ آپ اتنے لمبے لمبے اداریے کیوں لکھتے ہیں کہا کہ مختصر لکھنے کیلئے میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا،ہم کئی دنوں سے حالات حاضرہ پر کالم لکھنا چاہ رہے تھے لیکن بقول یوسفی شائستہ آدمی وہ ہے جو حالات حاضرہ پر دو منٹ فی البدیع گفتگو گالی دیے بغیر کرسکے ،سو ہم حالات حاضرہ پر اچھا کالم نہ لکھ سکے ،ویسے بھی ہمارے سب اچھے کالم وہی ہوتے ہیں جو ہم لکھ نہیں پاتے ،کچھ عرصہ قبل مشفق خواجہ سے کسی نے کہا آپ آج کل ادیبوں کی پسند کے کالم لکھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ مگر وہ تو آج کل کوئی کالم نہیں لکھ رہے ۔۔۔؟؟اس لیے تو کہہ رہا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ریاض کے بارے میں ستار نواز روی شنکر کہتے ہیں کہ ایک دن ریاض نہ کرو تو آپ محسوس کرو گے ،دو دن ریاض نہ کرو تو آپ نقاد محسوس کرینگے اور اگر تین دن ریاض نہ کرو گے تو سننے والے محسوس کرینگے ،ویسے میوزک بڑی کمال کی چیز ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ہمارے جدید و شدید گلوکار مائیک پکڑ کر جو کچھ کرتے ہیں انہیں اس کیلئے پاگل خانے کی ہوا کھانا پڑتی،لوگ ان کے گانے پسند بھی کرتے ہیں۔
ظاہر ہے بنہ اچھے گانے سن سن کر اکتا بھی جاتا ہے ،آسکر وائیلڈ نے اسی لیے کہا ہے کہ اگر کوئی اچھا گا رہا ہو تو کوئی سنتا نہیں اور کوئی بُرا گا رہا ہو تو لوگ بولتے نہیں ،یہ نوجوان گلوکار خود ہی گیت لکھتے ہیں اور پھر خود ہی گیت کمپوز بھی کرتے ہیں ،یہ گاتے گاتے کھو جاتے ہیں پھر کہیں سے ڈھونڈ کر انہیں لانا پڑتا ہے ،ان کی آواز سے اس قدر تیزی سے ہال بھرتا ہے کہ لوگ کرسیوں سے اٹھ رہے ہوتے ہیں تاکہ آواز کو اور جگہ مل سکے ،ایسے ہی ایک گروپ میں ایک جاننے والے گلوکار نے کہا کہ میں نے اپنی آواز کا کئی لاکھ کا بیمہ کروایا اس کی آواز سن کر ہم نے پوچھا کہ آپ نے اتنی رقم کہاں خرچ کی ؟؟استاد روشنی خان کہتے ہیں کہ میرے راگ میں اتنی طاقت ہے کہ میں اسے رات کو گا کر وقت معلوم کر سکتا ہوں۔
واقعی ایک رات انہوں نے راگ چھیڑا تو ہمسائے نے چلا کر کہا کہ رات کے تین بجے کون گا رہا ہے،نوجوان گروپ کی صورت میں مل کر اس لیے گاتے ہیں تاکہ پتہ نہ چل سکے کہ سب سے بے سُرا کون ہے؟؟یہ بھاگتے ہوئے گاتے ہیں واقعی ایسا گانے والے کو بھاگنا ہی چاہیے ،ویسے بھاگتے دوڑتے گانا ایک جگہ کھڑے ہوکر گانے سے زیادہ محفوظ طریقہ ہے ،کیونکہ اس میں پکڑے جانے کا خطرہ کم ہوتا ہے ،پھر اس سے ورزش بھی ہو جاتی ہے ،کسی نے پوچھا کہ سات دن ایسے گائو تو بندہ کتنا ویک ہو جاتا ہے کہا ایک ویک ہوجاتا ہے،بہر حال اس طریقہ سے گانا کتنا پتلا کرتا ہے ہمیں اس کا علم نہیں ایسے ہی جیسے کسی نے پوچھا کہ حلوے کی پلیٹ میں سب سے زیادہ موٹاپا کون کرتا ہے تو کہا کہ حلوے کی پلیٹ میں جو چمچہ ہوتا ہے۔