یہ کیسا طرز حکمرانی ہے

Justice

Justice

تحریر : پروفیسر مظہر

حدیثِ رسولۖہے ”جو شخص نرمی کی صفت سے محروم کر دیا گیا وہ سارے خیر سے محروم کر دیا گیا”۔ وہ مگر انانیت کے سرکش بتوں کو حلیمی کے ہتھوڑے سے پاش پاش کرنے کو تیار نہ درباری قصیدہ گو اُسے درسِ بیداری دینے کے لیے بیقرار۔ اپنے بیگانے سبھی متفق کہ نرمی اُسے چھو کر بھی نہیں گزری۔ دعویٰ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا مگر ایمان وایقان کی بنیادیں اتنی کمزور کہ ہمہ وقت نرغۂ وہم وگماں میں۔

قولِ حضرت علی ہے ”زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اُسے کھُلا چھوڑ دو تو عین ممکن ہے تجھے ہی پھاڑ کھائے”۔ مگر اُس کی زبان نے سیاست کو اتنا آلودہ کر دیا کہ اب جابجا غیرپارلیمانی الفاظ کی بھرمار۔ سہانے سپنوں کی ایسی معکوس تعبیر کبھی دہکھی نہ سُنی مگرجھوٹ کی آڑھت سجانے والے کی پیشانی کبھی عرقِ ندامت سے تر نہیں ہوئی، درس البتہ پھر بھی یہی کہ ”گھبرانا نہیں”۔ عریاں حقیقت یہی کہ اُس کا مطلوب ومقصود مسندِ اقتدار تھا جس کے حصول کے لیے سب جائز حتیٰ کہ ”یوٹرن” بھی جس پر اُسے فخر۔ یوٹرن کا مطلب کسی شخص یا ادارے کا اپنی پالیسی یا پروگرام کے بالکل اُلٹ کام کرناہے۔ حافظ حمداللہ کے نزدیک یوٹرن کا مطلب ”تھوک کر چاٹنا”ہے جبکہ یوٹرن پر فخر کرنے والے کے نزدیک ”لوگوں کو یوٹرن کا مطلب ہی نہیں آتا”۔ کیا اُنہوں نے کبھی سوچا کہ دینِ مبیں میں ایفائے عہد پرکتنا زور دیا گیاہے؟۔ ارشادِ ربی ہے ”عہد کو پورا کروکیونکہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا (بنی اسرائیل آیت 17)”۔ سورة المومنون آیت 23 میں اُن لوگوں کی تعریف کی گئی جو ایفائے عہد کرتے ہیں، ارشاد ہوا ”اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں”۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یوٹرن پر فخر کرنے والا کبھی وعدہ وفا کر سکتاہے؟۔

جس کرسی کے حصول کی تگ ودَو میں وہ سول نافرمانی تک اُتر آیا، وہ اُسے مل تو گئی لیکن قوم کا یہ سردار قوم کا خادم کبھی نہ بن سکا (حدیثِ رسولۖ ہے کہ قوم کا سردار اُس کا خادم ہوتا ہے)۔ اِدھر اُس کی ضد، انا اور نرگسیت اُسے ایک پَل چین نہیں لینے دیتی اور اُدھر قوم کا سیاسی شعور پختگی کی جانب محوِسفر۔ وہ دَور لَد گیا جب غلام اِبنِ غلام زندانِ تمنا کا کوہِ گراں اُٹھائے مقدر کو کوستے رہتے تھے۔ اب لبوں سے خاموشی کے قفل ٹوٹ چکے، زنگ آلود زبانیں صیقل ہو چکیں اور سوال کی طاقت اُبھر کر سامنے آچکی۔ اب خلم کے ماتے لب کھول کر حشر اُٹھاتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ سو دنوں میں ملک کی تقدیر کیوں نہیں بدلی؟۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا جھانسا کیوں؟۔ مجبورومقہور کا رزق مہنگائی کے عفریت کے جبڑوں میں کیوں؟۔ کشکولِ گدائی پر انحصار کیوں؟۔ احتساب صرف اپوزیشن کا کیوں؟۔ زورآوروں کے دَر پر سجدہ ریزی کیوں؟۔ کابینہ اور بیوروکریسی میں ہمہ وقت اُتھل پُتھل کیوں؟۔ کشمیر کی بیٹی برہنہ سر کیوں؟۔ مجوزہ ریاستِ مدینہ میں موٹروے جیسے سانحات کیوں؟۔ کیوں، آخر کیوں؟۔

سانحہ موٹروے اپنے جلو میں ہنگامے لے آیا۔ زبانیں کھل گئیں، سوال کی شمشیر برہنہ ہوئی اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں۔ جماعت اسلامی شعبۂ خواتین نے سانحے کے ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بناتے ہوئے سرِعام پھانسی کا مطالبہ کر دیا اور حقوقِ نسواں کی مغرب زدہ این جی اوز نے احتجاج تو کیا مگر سزائے موت کی مخالفت کر دی۔ لبرلز اور سیکولرز نے بھی ”حسبِ توفیق” اپنا حصہ ڈالتے ہوئے سوالات کھڑے کر دیئے۔ حقیقت مگر یہی کہ یہ دینِ مبیں سے دوری کا شاخسانہ ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب میں 1909ء میں پہلی بار عورت نے اپنے حقوق کی آواز اُٹھائی اور 1945ء میں اقوامِ متحدہ میں حقوقِ نسواں کی قرارداد منظور ہوئی جبکہ اسلام وہ آفاقی دین ہے جس نے چودہ سو سال پہلے عورت کو اعلیٰ مقام عطا کرتے ہوئے تمام معاملات میں مرد اور عورت کو یکساں درجات عطا کیے۔ اگر آج یہ معاشرہ مردوں کا ہے تو اِس کی واحد وجہ دین سے دوری ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی اگر اسلامی تعزیرات پر مکمل عمل درآمد کیا جائے تو موٹروے جیسے سانحات کا سدِباب کیا جا سکتاہے۔ سورة ولنور آیت 2 میں درج ہے ”زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو 100 کوڑے مارو اور اللہ کے دین کے معاملے میں اُن پر ترس کھانے کا جذبہ تم کو دامن گیر نہ ہواگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور اُن کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے”۔ جب فرقانِ حمید میںصراحت سے زانی کی سزا مقرر کر دی گئی اور ہمیں ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” کا باسی ہونے پر فخر بھی ہے تو پھر اسلامی تعزیرات پر عمل درآمد کرنے میں ہچکچاہٹ کیوںاور سزاؤں پر سرِعام عمل درآمد کیوں نہیں؟۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے تعزیرات کے معاملے میں مغرب کی تقلید کرنی ہے یا اسلام کی؟۔ اور کیا قرآنِ حمید فرقانِ حمید اللہ کی وہ کتاب نہیں جو ہر مسلمان کی رَہنمائی کے لیے قیامت تک کافی ہے؟۔ سورة بقر میں ارشاد ہوا ”یہ اللہ کی کتاب ہے، اِس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے اُن پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا اُس میں سے خرچ کرتے ہیں (سورة بقرہ 2,3)”۔ اِسی سورة مبارکہ کی آیت,6 5 میں ارشاد ہوا میں ارشاد ہوا ”ایسے لوگ اپنے رَب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔

جن لوگوں نے (اِن باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کر دیا، اُن کے لیے یکساں ہے، خواہ تم اُنہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں”۔ لیکن کیا کیجئئے کہ کچھ عقیل وفہیم اہلِ علم کو سوال اُٹھانے کی عادت ہے۔ ایسے ہی ایک صاحبِ علم نے سوال اُٹھایا کہ قرآنِ مجید میں زنا کی سزا تو ہے زنابالجبر (ریب) کی نہیں۔ اُن کی خدمتِ عالیہ میں عرض ہے کہ زنا تو بہرحال زنا ہے خواہ وہ بالجبر ہو یا بالرضا۔ بالرضا میں دونوں کو سزا دی جائے گی اور بالجبر میں صرف جبراََ زنا کرنے والے کو۔ سورہ النور میں ارشاد ہوا ”اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیاوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہو اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جبر کے بعد اللہ اُن کے لیے غفور الرحیم ہے (سورة النور آیت 34 )”۔ اِس سورة مبارکہ میں صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے کہ جس پر جبر ہو، اللہ اُس کے لیے غفور الرحیم ہے۔ فرقانِ حمید میں تو کھول کھول کر بیان کر دیا گیا اور اِس میں کوئی ”ٹیڑھ” بھی نہیں۔ اِس کے بعد غلط فہمی کا ازالہ ہو جانا چاہیے۔

اب سوال یہ ہے کہ مکمل اسلامی نظام کے مکمل نفاذکی ذمہ داری کس پر ہے؟۔ جب وزیرِاعظم بار بار ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا اعلان کرتے ہیں تو اُنہیں ایسا کرنے سے روکا کس نے ہے؟۔ اپنے اِس عہد کی تکمیل کے لیے اُنہیں اپوزیشن کی حمایت کی بھی مطلق ضرورت نہیں کیونکہ ہمارا آئین پہلے ہی اسلامی ہے اور اِس میں کسی ترمیم کی ضرورت بھی نہیں۔ ضرورت ہے تو آئین پر مکمل عمل درآمد کی جس میں صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی بھی قانون غیراسلامی نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو اُسے دینی قالب میں ڈھال دیا جائے گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اِسی مقصد کی تکمیل کے لیے تشکیل دی گئی جس نے سات سالوں میں تمام قوانین کو اسلامی قالب میں ڈھالنا تھا لیکن آج سینتالیس سال گزرنے کے باوجود ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔

Prof Mazhar

Prof Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر