مدینہ طرز کی ریاست کے حوالے سے دو اہم معاملات کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ حکمراں جماعت کے رہنما اپنے منشور میں ”ریاست مدینہ“ کا حوالہ بڑی شدومد سے دیتے ہیں، لیکن ان کی تشریح واضح نہیں۔ ریاست مدینہ کا اصل تصور نبی اکرمﷺ کی نگراں ریاست ہے۔ قرآن کریم تاقیامت ایک ابدی و اصولی قانون کے تحت موجود ہے۔
حضورﷺ نے میثاق مدینہ کے نام سے معاہدہ اہل یہود کے ساتھ کیا۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مؤرخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جب کہ میگنا کارٹا 600 برس بعد 1215 میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔ میثاق مدینہ کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرتﷺ نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی سیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔ نبی کریمﷺ کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنوقریظہ تھے۔
نبی اکرمﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد دورِ خلافت راشدہؓ میں اسلام جس تیزی کے ساتھ پھیلا، اس کی مثال رہتی دنیا تک نہیں مل سکتی۔ جہاں دلوں کو مسخر کیا وہیں اسلامی ریاست نے عالمی طاقتوں کو سرنگوں کیا۔ دشمنان اسلام کی سازشیں بھی عروج پر رہیں اور خلفائے راشدینؓ میں سے حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ کو شہید کیا گیا، لیکن ریاست مدینہ سے شروع ہونے والا سفر آج تک تمام تر اختلافات کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ اس موقع پر اُن اختلافات کا ذکر کرنا مقصود نہیں جس کی وجہ سے مسلم ریاستوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کو ”مدینہ طرز کی ریاست“ کا نام سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ جس قسم کی بدترین صورت حال موجودہ حکومت پیدا کررہی ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی اور انتظام و انصرام میں ناکامیوں کا سامنا الگ ہے، خود حکمراں جماعت میں اختلافات عروج پر ہیں جب کہ عظیم اسلامی ریاست مدینہ کے عظمت و بھائی چارے کے انمٹ نقوش تاریخ میں ایسے ثبت ہیں کہ غیر مسلم بھی اس کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بننے والی مملکت ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ثمرات سے خود پاکستانی عوام آج تک فائدہ نہیں اٹھاسکے، کیونکہ وطن عزیز کے خلاف عالمی سازشیں عروج پر ہیں۔ فی الوقت اس کی وجوہ پر بات نہیں کرتے، لیکن مجھے اُس وقت یقیناً حیرانی ہوتی ہے جب پاکستان میں جمہوریت جیسے نظام کے تحت منتخب ہونے والی اہم شخصیات ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔
وزیر باتدبیر نے الیکشن کمیشن کے اراکین کے انتخاب کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے جس قسم کا بیان دیا، وہ حیران کن تھا۔ حکمراں جماعت کا منشور اپنی جگہ، تاہم گزشتہ8 ماہ سے پارلیمنٹ کی جو بے توقیری ہورہی ہے، وہ افسوس ناک ہے۔ اپوزیشن رہنما کے ساتھ مصافحے سے بچنے کے لیے وزیراعظم کا پچھلی نشستوں سے آکر ایوان میں بیٹھنا حیران کن منظر تھا۔ وزیراعظم کا پارلیمنٹ میں باقاعدہ نہ آنا، کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کو ہر 15 دن بعد سوالات کے جواب دینے کے لیے انہیں ایسا سازگار ماحول درکار ہے، جو انہوں نے خود اپوزیشن میں رہتے ہوئے کبھی نہیں دیا تھا۔ یہ بھی غیر اخلاقی عمل ہے کہ جس آئین کے تحت کابینہ بنائی جاتی ہے، امور مملکت زیر بحث لائے جاتے ہیں، وہاں ایک ایسے فرد کو ’اقربا پروری‘ کے تحت شریک کیا جاتا ہے جو کسی سیاسی یا سرکاری عہدے کا اہل تک نہیں، اس پر جمہوری آمریت کا مظاہرہ کہ یہ ”صوابدیدی عمل“ ہے۔ وزراء کا یہ کہنا کہ ہر حتمی فیصلہ وزیراعظم کریں گے، تو پھر یہ کابینہ، پارلیمنٹ اور جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے۔ جمہوری آمریت میں ہی کیے جانے والے صوابدیدی فیصلوں نے پہلے ہی ملک کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب ڈیموکریسی مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں۔
وزیراعظم مدینہ طرز کی ریاست کا سیاسی نعرہ تو دے رہے ہیں لیکن راقم کا عاجزانہ مشورہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مخالفین کو قائل کیجیے۔ سیاسی مخالفین کے باہمی اختلافات سے عوام کو غرض نہیں، بلکہ وہ تو ہر حکومت سے صرف اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔مخالفین سے کن بنیادوں و نکات پر مذاکرات و معاہدے کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے میثاق مدینہ جیسا عظیم ترین معاہدہ موجود ہے۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات کی بہترین نظیر حضرت صدیقؓ اکبر کے دور خلافت میں بہترین رہنما اصول کی صورت موجود ہے۔ ریاست کے انتظامی امور کس طرح چلائے جائیں اور کون کس عہدے کے لیے اہل ہے، اس کے لیے حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کے انتظام و انصرام سے بہترین مثال کہاں ملے گی۔ صبر و تحمل، شفقت، حسن ظن و مخالفین سے حُسن سلوک اور معاشی امور کے ماہر عظیم خلیفہ حضرت عثمان غنیؓ کی سیرت کو اپنائیں، پھر دیکھئے گا مملکت معاشی مسائل سے کیسے باآسانی باہر نکلتی ہے۔ حضرت علیؓ کی شجاعت اور بصیرت کو سمجھ لیں تو مدینہ طرز کی ریاست قائم کرنے کے لیے پہلی اینٹ رکھنے کا اعزاز مل سکتا ہے۔ ہم سب کے لیے حضرت محمد ﷺ اور اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین کی زندگیاں مشعل راہ ہیں۔ اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کریں۔ یاد رکھیں یہ قانون فطرت ہے کہ قدرت اپنی فیاضی سے تمام بنی نوع انسان کو سرفراز کرتی ہے۔