تحریر : میر افسر امان پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارے وزیر اعظم صاحب کی بیماری کی وجہ سے حکومت کے اہم معاملات ویڈو لنک کے ذریعے چلائے گئے۔ قوم کو اپنے وزیر اعظم کی صحت کی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ انہیں صحت عطا فرمائے اور وہ جلد از جلد صحت یاب ہوکر پاکستان لوٹیں اور حکومتی معاملات بخوبی سر انجام دیں۔ کبھی کبھی کچھ خاص چزیں اللہ کی طرف سے انسانوں کو عطا ہوتیں ہیں ان میں ہمارے وزیر اعظم صاحب خوش قسمت ہیں کہ کئی خاص چیزیں اللہ نے انہیں عطا کیں۔ ان چیزوں میں سب سے بڑی اور تاریخی چیز پاکستان کاایٹمی تجربہ ہے۔
قارئین! کو یاد ہو گا وزیر اعظم صاحب نے ایٹمی دھماکا سے پہلے ہی کشمیر کے دورے کے دوران بھارت کو للکارتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ پھر اس کے بعد ٢٨ مئی کو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے اپنی ازلی دشمن بھارت پر ایٹمی برتری حاصل کر لی تھی ۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو نے پہل کی تھی جس کے لیے ان کی جتنی بھی تحریف کی جائے کم ہے، لیکن اس کے بعد پاکستان کے ہر حکمران نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اپنا اپنا قردار ادا کیا جو تاریخ میںسنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔لیکن تاریخ نے یہ الفاظ بھی اپنے اندر ثبت کر لیے ہیں کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے نوازشریف کے دور میں کر کے اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کے چھٹی قوت بن گیا۔
ساری مغربی دنیا، شیطان کبیر، مسلمانوں کے دشمن اور پاکستان کے خلاف گریٹ گیم کے سرخیل امریکا کی مخالفت اور پیسوں کی لالچ کے باوجود یہ کام اللہ نے نواز شریف سے کرایا۔ تو اس طرح پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے وزیر اعظم کو ملی وہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا ہے جق ان کے لیے قابل فخر ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے جب نواز شریف کی جمہوری حکومت ختم کی تھی تو اس وقت اِن کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں ممبران کی دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے نواز شریف پر عنایت تھی۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ان پر جہاز اغوا کا مقدمہ قائم کیا جس میں نواز شریف کو سزا ہوئی اور وہ معافی مانگ کر ایک معاہدے کے تحت دس سال کے لیے سعودی عرب منتقل ہو گئے۔
Pervez Musharraf
اس کے بعد ڈکٹیٹر پرویز مشرف تکبر سے کہا کرتے تھے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو پاکستان میں نہیں آسکتے۔ مقافات عمل دیکھیں کہ تکبر کرنے والا ڈکٹیٹر عدالت میں پیشی کے ڈر سے پہلے کئی ماہ تک راولپنڈی کی ہسپتال میں چھپا رہا اور اب منافقت کر کے بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر بھاگ گیا اور عدالت نے ایک کیس میں اُس کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کئے ہوئے ہیں۔ جن کو تکبر کی وجہ سے پاکستان میں آنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ ان دونوں نے اس کے آنکھوں کے سامنے پاکستان میں حکومتیں کیں۔
زردار ی صاحب کے پانچ سال میں مفاہمت کے تحت فرنڈلی اپوزیشن کا قردار ادا کرتے رہے اور اس پالیسی کے تحت پاکستان میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنے قانونی پانچ سال مکمل کیے۔نواز شریف کو اللہ نے ٢٠١٣ء کے انتخابات میں ایک بار پھر پاکستان کی پارلیمنٹ میں ممبران کی دو تہائی اکثریت دی جس کے جیسے تیسے تین سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اسطرح اگر قسمت کی بات کی جائے تو اللہ کی طرف سے نواز شریف کو یہ تیسری عنایت ہے ۔ حسن اتفاق کے نواز شریف صاحب بیمار ہو گئے اور ان کو اپنے علاج کی غرض سے لندن جانا پڑا۔ ان کی بیٹی مریم صفدر صاحبہ نے کے حوالے سے الیکٹرونک میڈیا پر پٹی چل رہی ہے کہ ٨ بجے سے آپریشن شروع ہے جو اب بھی جاری ہے۔آپریشن تھیٹر جانے سے پہلے اپنی وادہ صاحبہ سے فون پر بات کی اور دعائیں لیں۔ اے کاش کے حکومتی طور پر کو صحت کے بارے میں نیوز بلیٹن وقفہ وقفہ سے جاری ہوتا تو قوم کو اپنے وزیر اعظم صاحب کی صحت کے متعلق بروقت معلومات ملتی رہیتں۔ مگر یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ نواز شریف نے اپنے دل کی اوپن سرجری سے ایک دن پہلے دو اہم اجلاس کی ویڈیو لنک کے ذریعے صدارت کی اوربجٹ تجاویز کی بھی منظوری دی۔
Nawaz Sharif
مخالف طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں کہ بجٹ پاس ہونے سے پہلے ہی راز فاش ہو جائے گا۔نواز شریف نے اس کا جواب دیا کہ بجٹ پاس ہونے سے پہلے ہی اخبارات کی سرخیاں لگ جاتیں ہیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔کچھ بھی ہو یہ بھی نواز شرف کو اعزاز حاصل ہوا کی ملک سے باہر رہ کر اور بیماری کی بھی حالت میں بجٹ تجاویز کی منظوری دی۔ صاحبو! نواز شریف کی پالیسیوں سے اختلافات ،ان کے ملکی معاملات دھیمے رویے، بچوں اور ان کے آف شور کمپنیوں میں ملوث ہونے، ان کے ١٩٨٥ء سے لیکر اب تک الیکشن کمیشن میں داخل شدہ گوشواروں کا ان کی آمدنی سے لگا نہ کھانے کے باجود قسمت کے دھنی ہونے کے واقعات بیان کئے ہیں۔
سات ماہ تک قابینہ کی میٹنگ نہ بلانا، کئی مدت سے اسکورٹی کمیٹی کا اجلاس نہ بلانا، کئی مہینوں سے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرنا،غیر ممالک کے غیر ضروری دورے کرنا، غریب ملک کے خزانے سے شاہانہ اخراجات کرنا، مسلمانوں کے قاتل اور پاکستان توڑنے کا اعلان کرنے والے دہشتگرد مودی سے ذاتی دوستی کرنا اور اسے اپنی سال گرہ میں لاہور بلانااور بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیوپر زبان بندی۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن پر ہر پاکستانی نواز شریف سے وضاحت مانگتا ہے مگرنواز شرف صاحب ہیں کہ اپنی خاموشی توڑنے کے لیے تیار نہیں۔
پارلیمنٹ میںدو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود پاکستان کے آئین میں وزیر اعظم کی غیر حاضری میں ان کے نائب کے لیے قانون سازی نہ کرنا، اور شاید ہمارے وزیر اعظم صاحب کو یہ پسند بھی نہیں۔ جبکہ دوسرے ملکوں کے آئین میں اس کا حل پیش کیا گیا ہے۔اس لیے آئین میں ترمیم کر کے وزیر اعظم کی غیر حاضری کے دوران کسی نائب وزیر اعظم کا تقرر ضرور ہونا چاہیے تاکہ امور مملکت آئینی طریقے سے چلتے رہیں۔ اور مخافت برائے مخالفت کرنے والوں کی بھی زبان بھی بند ہو۔ ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وزیر اعظم صاحب جلد از جلد صحت یاب ہوں اور پاکستان تشریف لا کر پہلے سے بہتر طریقے سے امور مملکت چلائیں آمین۔ اور قانون سازی بھی کریں تاکہ آیندہ ا یسی صورت میں ویڈیو لنک کے ذریعہ ملکی معاملات نہ چلائے پڑیں جو کہ بہر حال محفوظ نہیں۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان