اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف سات اگست سے احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی مشاورت سے نہیں کیا گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے حکومت کے خلاف سولو فلائٹ کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے امکان یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ احتجاجی تحریک بھی سنہ 2014 میں ہونے والی احتجاجی تحریک اور دھرنے کی طرح ناکام ہوگی۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے اپنے چیمبر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے یکطرفہ فیصلے اپوزیشن کو کمزور اور حکومت کو مضبوط کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ دو روز قبل پانامالیکس کے بارے میں پارلیمنٹ میں موجود حزب مخالف کی جماعتوں کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ابتدائی بات چیت کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے یا کوئی دوسرا لائحہ عمل اختیار کرنے سے متعلق فیصلہ ان جماعتوں کی قیادت کرے گی۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، ڈاکٹر عارف علوی اور ڈاکٹر شریں مزاری بھی موجود تھے لیکن اُن کو بھی عمران خان کی طرف سے حکومت کے خلاف سات اگست کو احتجاجی تحریک چلانے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے سابق فوجی صدر ضیاالحق کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے لیے جو سیاسی اتحاد بنایا تھا اس میں چھوٹی سے چھوٹی سیاسی جماعت کو بھی ساتھ لے کر چلے تھے جس کی وجہ سے اُن کی تحریک کامیاب ہوئی تھی۔
اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں کچھ جذباتی افراد ہیں جو فوری طور پر نتائج حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر خواب کی تعبیر بھی جلد ہو۔ پانامالیکس کے معاملے پر حزب مخالف کی جماعتوں کے اجلاس میں اکثریت نے حکومت کے خلاف فوری طور پر احتجاجی تحریک چلانے کی مخالفت کی تھی۔
حزب مخالف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے پانامالیکس کے معاملے پر وزیر اعظم کی نااہلی سے متعلق الیکشن کمیشن میں دوخواستیں دائر کر رکھی ہیں تاہم الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان کے نہ ہونے کی وجہ سے ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوسکی۔