پاکستان تحریک انصاف نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو متزلزل کرنے کی کوششوں کے بعد وفاق اور صوبوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے تحت حکومتی جماعت اتحادی جماعتوں کے قابل عمل مطالبات ماننے پر غور کر رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے متحدہ قومی مومنٹ پاکستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے ان کے قابل عمل مطالبات پر کام شروع کر دیا۔جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں نے حکومت کے خلاف کسی ایڈونچر کا حصہ نہ بننے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اس حوالے سے اعلٰی حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایم کیو ایم پاکستان اور بی این پی مینگل کے قابل عمل مطالبات پر کام کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
حکومت ایم کیوایم پاکستان کے سندھ میں ان کی مرکز کے ساتھ اونرشپ کے لئے وفاق کے ماتحت چلنے والے محکموں میں ترقیاتی کاموں میں فنڈز دے گی جبکہ متعلقہ پراجیکٹس کی اونرشپ بھی ایم کیوایم پاکستان ہی کو دی جائے گی۔ایم کیو ایم نے حکومتی جماعت سے ملک بھر میں پارٹی کے سیل کئے جانے والے دفاتر کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے ،ان دفاتر میں سے کو دفاتر ایم کیو ایم پاکستان کی ملکیت ثابت ہو گئے وہ واپس ہو جائیں گے کیونکہ کراچی اور حیدرآباد میں موجود بیشتر دفاتر ایسے تھے جو ایم کیو ایم لندن کے ہیں۔ بلوچستان کی ترقی میں مرکزی حکومت اپنی اتحادی کی اونرشپ کو ثابت کرنے کے لئے تمام اقدامات اْٹھائے گی۔بلوچستان میں ہونے والی ترقی جس میں سی پیک پراجیکٹ سر فہرست ہے، میں بلوچ عوام کا پورا حصہ ہو گا اور اس کے لئے بی این پی مینگل کو اہم کردار دیا جائے گا۔
بلوچستان سے لاپتہ افراد کا معاملہ صوبائی لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے اس میں وفاق کا کوئی کردار نہیں بنتا۔ ذرائع کے مطابق لاپتہ افراد میں بہت سارے ایسے افراد ہیں جو سرے سے لاپتہ ہوئے ہی نہیں اور بھٹکے ہوئے بلوچوں یا بھارت اور دیگر بین الاقوامی قوتوں کے خطے میں کھیل کا حصہ بنتے ہوئے افغانستان میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ان کے دہشتگرد لیڈر بھارت میں بھی ہیں۔میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ اپنی مرضی سے لاپتہ افراد کو بازیاب نہیں کروایا جا سکتا۔ ایم کیو ایم پاکستان اور بی این پی مینگل کی سینئر قیادت کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کسی ایڈونچر کا حصہ نہیں بنیں گے ،اتحادیوں میں اختلافات تو پیدا ہو جایا کرتے ہیں، ہم صرف اپنے مطالبات پورا کروانا چاہتے ہیں جو ہمارے نزدیک جائز اور قابل عمل ہیں۔یہ وہی مطالبات یا شرائط ہیں جو ہم نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی بننے سے پہلے ان کے سامنے رکھے تھے اور پی ٹی آئی کی اعلٰی قیادت نے اقتدار میں آنے کے بعد ان کو پورا کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی حمایت برقرار رکھنے کے لیے ایک کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ تاہم اب اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے حکومت نے ان کے قابل عمل مطالبات کو پورا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا جائے گا۔دوسری جانب متحدہ اپوزیشن نے 8 افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی۔کمیٹی میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں جماعتوں کے تین تین ارکان ہوں گے۔کمیٹی میں ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی ، رانا تنویر اور رانا ثناء اللہ شامل ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ اور شیری رحمان بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔کمیٹی اپوزیشن کی مستقبل کی حکمت عملی اور طریقہ کار طے کرے گی۔کمیٹی سینٹ ،قومی اسمبلی میں حکومت سیرابطہ کارکاکرداربھی اداکرے گی۔واضح ہو کہ اپوزیشن کے خلاف بڑھتی ہوئی کاروائیوں کے بعد اپوزیشن جماعتوں میں قربتیں بڑھی تھیں۔
دو روز قبل بھی اپوزیشن کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں آصف زرداری نے میثاق جمہوریت نئے سرے سے کرنے کی بات کی سابق صدرکا موقف تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کو بھی اس میثاق جمہوریت میں شامل کیا جائے جبکہ سینٹ میں اکثریت کو حکومت کے خلاف استعمال کرتے ہوئے منی بجٹ میں حکومت کو ریلیف نہ دینے کی تجویز دی گئی۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اہم معاملات پراپوزیشن کی بنائی گئی کمیٹی غورکرے۔کمیٹی متفقہ تجاویزمرتب کرے تولائحہ عمل بنانے میں آسانی ہوگی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کی تیاری کر لی ہے۔
سیاسی طور پر سازشیں ، گٹھ جوڑ اور پیسوں کے لین دین کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ زرداری صاحب کو نواز شریف اور شہباز شریف کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنی اکثریت کے باوجود وزارت اعلیٰ کے لیے کوئی اْمیدوار کھڑا نہیں کرے گی ہم اپنے تمام بندے زرداری صاحب کے حوالے کرتے ہیں اور وہ اپنا بندہ یا پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا لیں جو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی ہیں اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ اب ہر حال میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت گرانی ہے۔ یہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے گھناؤنے عزائم ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح وفاق اور پنجاب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرا دیا جائے۔ 33 میں سے 18 ایم پی ایز نے وزیراعظم کو خط لکھ دیا ہے کہ ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے ، ہمارے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے، ہمیں نہ تو پارلیمانی سیکرٹری بنایا گیا اور نہ ہی صوبائی وزارت دی گئی۔
وفاق میں چودہ پارلیمانی سیکرٹری خواتین کو رکھا گیا ہے اور وزارتیں بھی دی گئی ہیں،لیکن صوبے میں ایسا کچھ نہیں ہوا نہ ہمیں کوئی ترقیاتی اسکیمیں دی گئیں۔ پوری قوم چاہتی ہے کہ عمران خان لوٹ مار کرنے والوں کو پکڑے اور عوام کا پیسہ واپس لوٹائے۔ ان کو چاہئیے کہ خود بھی دیکھیں کہ کون کون حکومت کے خلاف نااہلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئیے کہ فوری طور پر اس کا ایکشن لے کر اس کے خلاف کارروائی کریں بصورت دیگر معاملہ بگڑ جائے گا۔
نواز شریف اور آصف زرداری سیاسی طور ختم ہو چکے ہیں، این آر او کے لئے دونوں پارلیمان کے اندر اور باہر سیاسی دبائوڈالنے کی کوششو ں میں مصروف ہیں لیکن وزیر اعظم عمران خان این آر او پر یقین رکھنے والے انسان نہیں ہیں، کوئی این آر او نہیں ہوگا، ایک جیل چلا گیا جبکہ دوسرا بھی جیل میں جانے والا ہے۔ حکومت کرپٹ مافیا سے نہ تو خوف زدہ ہے اور نہ ہی بلیک میل ہوگی، پی ٹی آئی حکومت نے مستحکم سیاست کی بنیاد رکھ دی ہے، پہلے تو جعلی بجٹ آتے رہے ہیں 23جنوری کو نیا بجٹ سامنے آ رہا ہے اس بجٹ کو ہی حکومت کا اصل بجٹ کہا جائے گا، نئے منی بجٹ میں معاشی استحکام آئے گا،سعودی عرب، یو اے ای اور چائینہ کے بعد اب ملائشیا اوراب ترکی بھی پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات کی مضبوطی کیلئے مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کے معاہدے کرکے ملکی معیشت میں بہتری میں اپنا حصہ ڈالے گا، پاکستان اور ترکی کے تعلقات مثالی ہیں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی سمت ملے گی۔ 3 ارب ڈالر کا پیکج معیشت کیلئے خوش آئند ہے حکومت کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔