اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ پر آئی ایس آئی کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا ہے کہ جو سوالات ہم نے پوچھے ان کا جواب آئی ایس آئی کی رپورٹ میں موجود نہیں۔
سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کر رہا ہے۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل، سیکرٹری داخلہ ابتدا میں عدالت سے غیر حاضر رہے جس پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔ سیکرٹری دفاع لیفٹینٹ جنرل ر آصف یاسین ملک نے سانحہ کوئٹہ پر آئی ایس آئی کی رپورٹ پیش کی۔ سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ایم آئی اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔
ایم آئی کو معلومات ملے تو وہ آئی ایس آئی کے حوالے کر دیتی ہے۔ سیکرٹری دفاع نے معزز عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی نے دہشتگردی کے خلاف 130 آپریشنز کیے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا سابقہ آپریشنز کا نہیں پوچھا گیا کیا حالیہ دہشت گردی کے واقعے کی کوئی اطلاع تھی۔ سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ ایسے کسی واقعے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ ایجنسیاں ہر وقت ہر کسی پر نظر نہیں رکھ سکتیں۔ عدالت نے آئی ایس آئی کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو سوالات ہم نے پوچھے ان کا جواب آئی ایس آئی کی رپورٹ میں موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں وہ باتیں ہیں جو اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔ افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ ہم نے پوچھا تھا کہ ایجنسیاں یہ دہشت گردی روکنے میں کیوں ناکام رہیں۔ آج یہ صورتحال ہے کہ دھرنا ختم ہوتا ہے اور پھر شروع ہو جاتا ہے۔
بالآخر ذمہ داری حکومت کی ہے وہ معاملات کو سنبھالے۔ آج بھی پورا ملک مفلوج ہے۔ کاروبار زندگی معطل ہے۔ جسٹس خجلی عارف نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بارود لاہور سے چل کر کوئٹہ پہنچ جاتا ہے۔
ایجنسیاں اور پولیس کیا کر رہی ہیں؟ یہ بات خطرناک ہے کہ سول حکومت ایسے واقعات روکنے میں ناکام ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج فوج کو بلانے کے نعرے لگ رہے ہیں۔ آئی ایس آئی نے الزام لگا دیا کہ سول حکومت انسداد دہشت گردی کا پروگرام طے نہیں کر رہی۔