اسلام آباد (جیوڈیسک) ایسا لگتا ہے کہ حکومت فوج کے ساتھ اپنے مسائل پر بات کرنے سے گریز کی کوشش کررہی ہے۔ جیسا کہ قومی اسمبلی میں ایک وزیر نے اس سے غیر معمولی انداز میں لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اس کو مسترد کردیا۔
حزبِ اختلاف کے اندرونی اختلافات نے بظاہر حکمران جماعت مسلم لیگ نون کو اس احتجاج پر قابو پانے میں مدد دی، اور اس نے امن و امان کی صورتحال پر بحث کی دعوت دے کر کچھ چنگاریاں اپنے دامن میں لے لیں۔ حزبِ اختلاف کے اراکین کی مختلف تحاریک التواء پس پشت ڈال دی گئیں، جو علیحدہ علیحدہ بحث کی طلبگار تھیں، ان میں حکومت اور فوج کے تعلقات کے حوالے سے بھی تھی۔
ریاستوں اور سرحدی علاقوں کے وفاقی وزیر لیفٹننٹ جنرل ریٹائیرڈ عبدالقادر بلوچ نے واضح کیا کہ جمہوریت کو فوج سے یا اس کے موجودہ چیف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
وفاقی وزیر نے اردو زبان میں کیے گئے تبصرے میں کہا کہ ’’فوج کی کمان اس وقت ہر اعتبار سے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل، قابل اور غیر سیاسی چیف کے ہاتھوں میں ہے، اور جمہوریت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘
اب تک ایوان میں وزیراعظم نواز شریف کی گیارہ مہینے پرانی حکومت کو فوج سے لاحق خطرے کے بارے میں کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی اور وفاقی وزیر نے حزب اختلاف کی جانب سے چند تقاریر جو کسی حد تک خاموش تھیں، کے جواب میں یہ بیان دیا، جس سے یہ سوالات کھڑے ہوگئے کہ اس فورم پر انہیں اس طرح بے پروا انداز میں یہ بات کرنی چاہیٔے تھی۔