اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی میں جمعے کو بجٹ پر بحث کا آغاز ہوگیا۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید نے کہا ہے کہ بجٹ بنانا ارکان پارلیمنٹ کا کام ہے اگر اسے ایوان میں لایا جاتا تو بہتر ہوتا۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نے انتخابات سے پہلے کشکول توڑنے کا کہاتھا لیکن یہ ٹوٹا نہیں بلکہ اس کاسائز مزید بڑا ہوگیا، حکومت نے ایک سال میں اتنا قرضہ لیاجتنا ہم نے 5 سال میں بھی نہیں لیا،ہمارے دور میں جو بچہ پیدا ہوتا تھا وہ 74ہزارکا مقروض ہوتا تھا۔
لیکن آج ہر پیداہونیوالا بچہ 84 ہزار کا مقروض ہوتا ہے ، ووٹ دیتے وقت ووٹریہ سوچتا ہے کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کیلیے ووٹ دینے جا رہا ہے تاہم 5 سال بعد اس سے ہم روٹی بھی چھینتے ہیں محکومت نے52 کلو گرام کا بجٹ پیش کیا ، اس کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن اسحاق ڈار کمال کے آدمی ہیں ، وہ پتھر کو سونا کہیں گے اور اسے ثابت بھی کریں گے۔
ان کی شاگردی اختیار کرنا پڑے گی، ڈار صاحب کو آج اگر میری جگہ کھڑا کردیں تو وہ اس بجٹ کو ایک منٹ میں زیروثابت کردیں گے اور میاں صاحب سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے، طویل تقریر کرکے وزیر خزانہ ارکان کو کنفیوژ کرنے میں کامیاب رہے ،2008 میں جب ہماری حکومت آئی تواسحاق ڈار کی بریفنگ کے بعد ہمارے بلڈپریشر ہائی ہو گئے تھے کہ کہیں ملک دیوالیہ نہ ہو جائے۔
تاہم 2 سال بعد گندم کی سرپلس پیداوار ہوئی۔ سابق اپوزیشن لیڈر چودھری نثارعلی خان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بجٹ کوئی وزارت یا ڈویژن نہ بنائے بلکہ پارلیمنٹ بنائے لیکن لگتاہے کہ حکومت نے ان کی سفارشات پر عمل نہیں کیا ، بجٹ اپریل میں ایوان اور قائمہ کمیٹیوں میں لانے کی تجویز تھی تاہم اس پربھی عمل نہیں ہوا،بجٹ بناناارکان کا کام ہے ۔
اسے اگر ایوان میں زیر بحث لایا جاتا تو بہتر ہوتا، پہلے پارلیمانی سال میں قانون سازی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب آپ کا ایک سال ضائع ہوگیا، ہمارے دور میں ریکارڈ قانون سازی ہوئی جبکہ موجودہ حکومت کی کارکردگی زیرو ہے ، وزیراعظم کی کرسی بھی عجیب و غریب ہوتی ہی جس میں غریب کی جھونپڑی بھی محل لگتی ہے۔