پاکستان میں جہاں سرکاری اداروں نے اپنی ذمہ داریاں دوسروں کے کاندھے پر ڈال رکھی ہیں اسی طرح ہم عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں آئے روز اپنی آنکھوں کے سامنے درجنوں حادثات کو دیکھتے ہیں اور خاموش تماشائی بن کر چل پڑتے ہیں بعض حادثات صرف چھوٹی سی غلطی یا کوتاہی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں اوراس میں بڑی غلطی متعلقہ سرکاری اداروں کی ہوتی ہے آپ کسی بھی شہر یا گائوں میں رہ رہے ہوں وہاں پر کسی نہ کسی سڑک پر کوئی نہ کوئی گڑھا بنا ہو گا بے ہنگم قسم کے سپیڈ بریکر بنے ہونگے کہیں سے سڑک ابھری ہوئی ہوگی کہیں پر سڑک بڑے ہی خطرناک انداز میں ٹوٹی ہوئی ہو گی یا کسی نہ کسی سڑک پر کوئی انڈر گرائونڈ بچھائی گئی لائن کا ڈھکن غائب ہو گا اور انہی خطرناک جگہوں پر حادثات آئے روز کا معمول بن چکے ہیں جب کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو پھر ہمدردی اور مدد کرنے والوں کی بھی لمبی لائن لگ جاتی ہے موٹر سائیکلوں والے سڑک کے درمیان ہی اپنی موٹر سائیکل روک کر جائے حادثہ کی طرف بھاگتے ہیں گاڑیوں والے ایک سیکنڈ کے لیے رک کر دیکھتے ہیں اور پھر ایک سیکنڈ کے افسوس کے ساتھ ہی آگے چل پڑتے ہیں مگر جس جگہ یہ حادثات ہو رہے ہیں وہاں پر کوئی توجہ نہیں دیتا نہ متعلقہ محکمہ اور نہ ہی وہاں کے عوامی نمائند ے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس جگہ پر متاثر ہونے والا بھی کوئی احتجاج نہیں کرتا جسکی وجہ سے اسی جگہ پر بار بار حادثات ہورہے ہیں
Lahore
اگر آپ لاہور میں کبھی نہر کے ساتھ ساتھ ٹھوکر نیاز بیگ سے دھرم پورہ اور مغل پورہ کی طرف سفر کر رہے ہوں تو مال روڈ انڈر پاس پر دوخطرناک قسم کے ابھار بنے ہوئے ہیں جہاں پر حادثات آئے روز کا معمول بنے ہوئے ہیں اس انڈر پاس سے تقریبا ہر محکمے کے افسرکا گذر لازمی ہوتا ہوگا جبکہ اس علاقہ کے ایم پی اے اور ایم این اے بھی اکثر یہاں سے گذرتے ہونگے اور انہوں نے بھی متعدد بار اس طرح کے حادثات کو قریب سے دیکھا ہوگا مگر کیا مجال ہے کہ کبھی کسی نے اس طرف توجہ دینے کی زحمت گوارا کی ہو ایک معمولی سی خرابی کے باعث کئی غریب افراد اس جگہ پر گر چکے ہیں اور خاص کر ایسے موٹر سائیکل سوار جنکے پیچھے بچے یا خواتین بیٹھی ہوتی ہیں وہ اس اچانک لگنے والے جمپ سے اچھل کر موٹر سائیکل سے نیچے جا گرتی ہیں اگر انکے پیچھے کوئی تیز رفتارکار آرہی ہو تو وہ گری ہوئی خاتون کو کچل بھی سکتی ہے اسی طرح کے خطرناک سپیڈ بریکر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سامنے جی ٹی روڈ پر بنا ئے گئے ہیں جہاں پر اکثر رات کے وقت نئے آنے والے تیز رفتاری کے باعث حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں اس خطرناک سپیڈ بریکر کی نشاندہی کرنے کے لیے سڑک پر کوئی نشان بھی نہیں بنایا گیا تاکہ نئے آنے والے کو اندازہ ہو سکے کہ آگے تین سپیڈ بریکر ہیں آئے روز حادثات کا سبب بننے والے اس طرح کے خطرناک گڑھے اور سپیڈ بریکر کئی گھرانوں کے چراغ گل کرچکے ہیں جہاںآئے روز حادثات کا نشانہ بننے والے اور پھر انکا تماشا دیکھنے والے خاموشی کا مجسمہ بن جائیں تو پھر وہاں کے ایوانوں میں چھائی ہوئی خاموشی کا سکوت کون توڑے گا اور ہمارے حکمران تو چاہتے بھی یہی ہیں کہ عوام ظلم بھی برداشت کرتی رہے اور انہیں ووٹ بھی دیتی رہے اور پھر انکی نسلوں کو بھی اقتدار کے ایوانوںمیں لانے میں اہم کردار ادا کرتی رہے خود جب یہ شاہی سواری پر نکلیں تو ہر طرف کی ٹریفک بند کردی جائے اور انہیں ایسی سڑکوں سے گذارا جائیں جنہیں دیکھ کر یہ خوش ہوتے رہیں اور عوام انکو دیکھ کر خون کے گھونٹ پیتے رہیں
یہ صرف لاہور کی دو اہم سڑکوں کا حال نہیں ہے پورے پاکستان میں آپ جہاں چلے جائیں کوئی سڑک اور گلی ان واہیات قسم کے کھڈوں سے خالی نظر نہیں آئے گی اور جن محکموں کے ذمہ ان سڑکو ں کی دیکھ بھال کا کام ہے وہ پہلے تو ٹھیکیداروں کے ساتھ ملکر ترقیاتی گرانٹ کے نام پر ملنے والی رقم کا کچھ حصہ ہڑپ کرتے تھے مگر اب تو ساری کی ساری رقم آپس میں بندر بانٹ کرلیتے ہیں ہمارے دیہاتوں سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اپنی ملنے والی گرانٹ کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہونے دیتے جیسے ہی پیسے متعلقہ محکمہ کے پاس آتے ہیں پھر انکو متعلقہ رکن اسمبلی ،متعلقہ محکمہ اور کچھ حصہ اسے بھی دے دیا جاتا ہے جس ٹھیکیدار کے نام پر ٹینڈر جاری کیا جاتا ہے ملکر ہضم کرجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکثر دیہی علاقوں میں نالیوں اور سولنگ وغیرہ کے لیے ہر سال بجٹ منظور ہوتا ہے مگر ان اشیاء کا سرے سے نام ونشان بھی نہیں ہوتا اور جو اراکین اسمبلی کچھ خوف خدا رکھتے ہیں وہ اپنے ترقیاتی بجٹ میں کچھ حصہ خرچ کردیتے ہیں مگر وہ بھی اس انداز سے کہ آج سڑک بنی ہے تو ایک سال کے اندر اندر وہ کسی کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگتی ہے اور یہ اراکین اسمبلی ٹھیکہ بھی اسی ٹھیکیدار کو دیتے ہیں جو انکو ایڈوانس میں 15 سے 25 فیصد تک ٹھیکے کے پیسے ادا کر دیتا ہے اسکے بعد پھر متعلقہ محکمہ کا ایکسیئن، ایس ڈی او، اورسیئر، ڈرافٹسمین اور کلرک وغیرہ نے بھی اسی عوامی بجٹ میں سے اپنا پنا حصہ بھی نوچنا ہوتا ہے اور ٹھیکیدار تو ہوتا ہی اسی تاک میں ہے کہ سب اپنا حصہ لے لیں تاکہ اسے بھی باقی کی رقم کا چیک آسانی سے مل جائے جہاں اتنے سارے خونخوار بھیڑے عوام کے ترقیاتی بجٹ کے بخیے اڈھیڑ رہے ہوں تو وہاں کی سڑکوں کا ایسا ہی حال ہوگا جو اس وقت صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہے باقی شہروں کا اندازہ وہاں کے رہنے والے مقامی طور پر خود ہی لگالیں۔