BWB سرکاری بلٹ پروف گاڑی ۔ سزا یافتہ وزیراعظم کا استحقاق کیسے ؟؟؟

Shahid Khaqan Abbasi and Nawaz Sharif

Shahid Khaqan Abbasi and Nawaz Sharif

تحریر : اے آر طارق

سب سے پہلے عجب بات کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے ن لیگ کی حکومت ختم ہونے کے ایک سال بعد ن لیگی” کرتا دھرتا”، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف سے بھی سرکاری BWB بلٹ پروف گاڑی واپس لے لی،ایک سال بعد گاڑی کی واپسی حکومتی اداروں کی مُلک کے بڑوں پر ”خصوصی شفقت” اور” کمال کارکردگی” کا اعلیٰ نمونہ ہے۔جس پر حکومت و حکومتی اداروں کو جتنا ”خراج تحسین ”پیش کیا جائے ،کم ہے۔آخر میں ایک دلچسپ بات اورانکشاف محترمہ مریم اورنگزیب کا،اور وہ یہ ہے کہ یہ گاڑی حکومت نے زبر دستی واپس لی ہے، یہ سابق وزیراعظم کاحق بنتا تھا اور اُن کو حفاظتی نقطہ نظر سے سہولت کے طور پر دی جاتی ہے اور یہ حق انہیں پاکستان دیتا ہے،گاڑی کا واپس لینا حکومت کے لیے فخر نہیں ،باعث شرم بات ہے۔پاکستان دنیا کا واحد مُلک ہے ،جہاں اِس طرح حیرت انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یہ کہ عجیب وغریب واقعات کی اِس سرزمین پاکستان کو ”فیکٹری” کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا،اِس لیے کہ جتنے حیرت انگیز ،عجیب و غریب واقعات اِس مُلک میں رونما ہوتے ہیں ،شاید ہی کسی دوسرے مُلک میں ہوتے ہو،جس شرح اور تناسب سے پاکستان میں آئے روز عجیب وغریب ،عوام کو دنگ کر دینے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، مُلک عزیز پاکستان اِس پر ”انعام” و” ایوارڈ” کا حق دار ٹھہرتا۔اِس لیے بھی کہ یہ مُلک عزیز پاکستان کا REWARD ٹھہرا کہ یہاں جو بھی واقعہ رونما ہو،جس نے بھی کیا ہو،اُس کا فوری الزام پاکستان پر آجاتا۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس مُلک عزیز کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اگر مُلک میں کوئی اچھاکام ہوتو اُس کاانعام اِسے نہیں ملتابلکہ وہ کوئی نہ کوئی شخصیت اپنے نام لے جاتی ہے۔

یعنی یہ کہ اگر مُلک عزیز میں اچھا ہوتو آپ کا کریڈٹ اور اگر بُرا ہوتووہ مُلک پاکستان کی غلطی۔کیا عجب واقعہ دیکھنے کو ملا کہ اثاثہ پاکستان ،BWBسرکاری بلٹ پروف گاڑی ،ایک سال گزر جانے کے بعدبھی ابھی تک ایک سابق وزیر اعظم کے تصرف و استعمال میں ہے،جو کہ اُن کے اقتدار میں سے آئوٹ ہونے کے بعدکسی بھی طرح اِن کے استعمال میں رہنے کا حق نہیں رکھتی اور نہ ہی سابق وزیر اعظم کا عقلی و قانونی استحقاق ٹھہرتا۔مگر اب تک استعمال میں رہی ،جو، اب جاکر سو جتن کرنے ،نیب راولپنڈی کی گاڑیوں کے حوالے سے بازپرس کرنے پر ملی،اور واپس کی گئی،وگرنہ اب تک بھی ایکشن نہ لیا جاتاتو شاید اب بھی اِن گاڑیوںکی بازیابی ممکن نہ ہوتی،یقینا اِس کا کریڈٹ نیب ، حکومت اوراُس کے اداروںکو جاتاہے،حکومت جانے ،سابق ہوجانے کے بعد کسی بھی طرح مناسب یا بہتر نہیں کہ مُلکی گاڑیاں سابقہ حکومت کے قبضہ و تصرف میں رہے،اِس پر صرف اتنا ہی حق بنتاکہ جب آپ حکومت و سیٹ پر ہوتو اِسے استعمال کرواور جب حکومت و سیٹ پر نہیں تو سرکاری عہدہ چھوڑنے کی طرح اِس ملک کی امانت ،اِ س کی ملکیت گاڑی بھی واپس کرو۔

جسے رکھنے کا کسی بھی طرح کوئی جواز نہیں بنتااور نہ ہی کوئی جواز بنایا جاسکتا۔حکومت چلے جانے کے بعد بھی اِن بااثر سیاسی شخصیات کے پاس سرکاری گاڑیوں کاسالہاسال رہنا، ایسے لوگوں کے اثرو رسوخ ،جب تک بات بنی رہے، بنی رہنے دو ،والی بات ہے۔یہ سب حکومتی اداروں کے متعلقہ شخص سے اُس کی ہمدردیاںسمیٹنے اور اپنے ذاتی تعلقات کو دوام دینے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔گاڑیوں کا سابق حکومت سے فوری واپس نہ لینا،حکومتی اداروں کی ڈھیل اور سستی کوتاہی کے ساتھ ساتھاُن کی غیر ذمہ درانہ حرکت ،کام میں عدم دلچسپی اور غیر فعالیت کا بین ثبوت ہے،مُلک و قوم کے قیمتی ونایاب اثاثوں کے ساتھ اِن کی یوں بے رخی ،بے توجہی،معاف کرنے اور بھول جانے کے قابل نہیں،مگر کیا کریںجس مُلک کے ”کرتا دھرتا”غافل ،لاپرواہ اور غیر ذمہ دار ہوتو اُن کے زیرسایہ ماتحت افراد ،ادارے کیسے فرض شناس ،توجہ کرنے والے اور ذمہ دار ہوسکتے۔مُلک عزیز پاکستان وہ مُلک ہے کہ جس کا انتظامی و معاشی ڈھانچہ بھی ملک پاکستان کے بیٹھے ہوئے ،ناکارہ ،کسی کام کے نہ سیاستدانوں کی طرح مردہ اور بیٹھا ہوا ہے ،جہاں سے اِن سیاستدانوں سے ٹھنڈی ہوا نہ آنے کی طرح اِن اداروں سے بھی بہتری اور اچھا کی رپورٹ نہیں آسکتی۔کتنے تعجب و حیرت کی بات ہے کہ اقتدار و اختیار ختم ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت گیا مگر اِن کی موج مستیاں اور BWB سرکاری گاڑیوں کے جھولے ابھی ختم ہونے کا نام نہیں لے پارہے تھے،اِن کی عیاشیاں تھنے کو نہیں آرہی تھی،اِن کی گزرے اقتدار کے باوجود سرکاری گاڑی میں سفر اور پروٹوکول کی خواہش ابھی بوڑھی نہیں ہوئی،اِن میں ہوس اقتدار ابھی بھی جاگ رہا،،مرنے کا نام ہی نہیں لے رہا،اِن میں اقتدار کی ہوس و خواہش ابھی جواں ہے،پروٹوکول کی تمنائوں نے ابھی تک ”کشتی بیچ منجھدار”دم نہیں توڑا۔

عوام کا مہنگائی کی وجہ سے بُرا حال ہوا پڑا،وہ دہشت گردی اور اِس سے منسلکہ بے شمار مسائل میں مبتلا اور اِن کی BWB بلٹ پروف سرکاری گاڑیوں میں محفوظ سفر کی خواہشیں ابھی بھی زندہ و تابندہ۔برسوں سے اقتدار اوراختیار کے امین ،بہت ساری جائیداد ،کئی ذاتی گاڑیوں کے مالک،اب بھی گئے وقت ،چھینے گئے اقتدار میں بھی سرکاری بلٹ پروف لکثرری گاڑیوں سے یکسر محرومی پر تلملا سا گئے ہیں،ملک عزیز پاکستان کا اثاثہ اِن قیمتی گاڑیوں کی متعلقہ محکمے کو واپسی پر خفاونالاںنظر آئے۔کیا نہیں سمجھتے کہ یہ گاڑیاں انہیں سرکار کو واپس کر دینی چاہئیے تھی؟جو کہ اب اپنے پاس رکھنا اِ ن کاکسی بھی طرح حق نہ ٹھہر تھاتھا؟۔کیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اپنی بے نامی جائیداد اوراثاثوںکی طرح اِن گاڑیوں کوبھی تاحیات اپنی ملکیت سمجھتے ہو؟۔گاڑیوں کی واپسی پر خفا ہونا،تلملا سا جانااِسی تلخ حقیقت کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے،کوئی مانے نہ مانے ،اُس کی مرضی،مگر سچ تو تمام ترصورتحال جانچنے کے بعد یہی لگتااور سچ یقینا کڑوا ہوتا اور اکثر برداشت میں نہیں آتا ہے۔ رہی بات مریم اورنگزیب کی باتیںتو اُن کی باتوں کو سیریس کون لیتا،اُن کو تو بات سے بات نکالنا ہوتی،چاہے وہ کسی کی جاری بات کو کاٹ کر ہی نکالے ۔ویسے ایک بات ہے ،مریم اورنگزیب جب چھوڑتی ہے تو صحافی تو صحافی ،سیاستدان بھی اُن کی بے ڈھنگی باتوں پرحیران رہ جاتے ہیں، بات سے بات نکالنا کوئی اِن موصوفہ سے سیکھے،جب بھی کرتی ،”کمال”کی بات کرتی ہیں اور کرے بھی کیوں نہ ،آخر پیسے ہی اِس چیز کے لیتی ہیں۔کمال کی ایکٹر،معروف سیاستدان۔ #

AR Tariq

AR Tariq

تحریر : اے آر طارق