اکثر کیا ہوتا ہے کہ ہم اپنی کامیابیوں کے لئے دوسروں کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ہمیں اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتاج بکہ دوسروں کی آنکھ میں بال بھی نظر آجاتا ہے،ایسے ہی اگر معاشرتی رویوں کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ اپنی ذات کے وکیل اور دوسروں کی کوتاہیوں کے جج بنے ہوتے ہیں۔پاکستانی اداروں اور سیاسی و سماجی اقدار کو لے لیں تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آنے والا جانے والے کے درپے ہی ہوتا ہے کہ جانے والوں نے کچھ نہیں چھوڑا،جبکہ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے حصے کی شمع کو جلا کر اجالا کرنے کی کوشش کریں وہ شمع ،علم کی ہو،خدمت کی ہو یا سماجی فلاح کی ملک کے ہر فرد کو اپنی بساط میں کام کرتے رہتے چاہئے بے دریغ اور بے غرض ہو کر۔اگر سب لوگ دوسروں کے راہ راست پر آنے کی بجائے اپنی راہ کو سیدھا کر لیں تو ہر شخص وقت پر اپنی اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔وگرنہ گہما گہمی کے اس دور میں جب ہر شخص یہ خیال کر لے کہ پہلے دوسرے درست سمت اپنائیں تو یقین کیجئے ہم سب اپنی راہوں کو کھو دیں گے۔لہذا اس سے قبل کے دیر ہو جائے ہمیں اپنے حصہ کی شمع جلا کر کسی اونچی مچان کی زینت بنا دینا چاہئے تاکہ بھولے ہوئے مسافروں کو اپنی منزل کے تعین میں کوئی دشواری نہ ہو۔
کنفیوشش کے جانے کے بعد اس کے شاگردوں نے اس کے اقوال کو جمع کر کے ایک کیاب کی صورت میں لوگوں تک پہنچایا تاکہ اس کے اقوال کی روشنی سے وہ لوگ بھی مستفید ہو سکیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کنفیوشش کو نہیں پایا۔انہوں نے ایک روائت نقل کی ہے کہ”بوقت شام ڈوبتے ہوئے سورج نے کہا کہ ہے کوئی جو میرے بعد روشنی کو قائم رکھے گا،دور جنگل میں ایک کٹیا میں جلتے دیے نے کہا کہ میں حتی المقدرو کوشش کرونگا۔
لہذا اگر انفرادی طور پر ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک دن ہر سو روشی ہی روشنی ہو۔لیکن اس کے لئے ہر کسی کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے لیکن بحثیت قوم ہمارا وطیرہ یہ ہو گیا ہے کہ ہم بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں۔اگر تبدیلی چاہئے تو سب کو اپبے تئیں بدلنا ہوگا صرف حکومتوں پر انحصار سے ہی ملکوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
ایک بار مامون بادشاہ سے کسی نے پوچھا کہ اے مامون تم حضرت عمر جیسے کیوں نہیں ہو؟تو مامون بادشاہ نے جواب دیا کیونکہ ان کے ساتھی حضرت ابو ہریرہ تھے جبکہ میری رعایا تم ہو۔اگر تم لوگ بھی حضرت ابو ہریرہ جیسے بن جائو تو میں بھی حضرت عمر جیسا بن جائونگا۔ایسے ہی ایک بار حضرت علی سے ان کے ایک مشیر نے سوال کیا کہ اے علی جیسے آپ کے زمانہ خلافت میں عدم استحکام ہے ایسے آپ سے پہلے کسی بھی خلیفہ کے دور میں دیکھنے کو نہیں ملتا تو اس پر شیرِ خدا نے فرمایا کہ کیونکہ ان کا میں مشیر تھا جبکہ میرے مشیر تم لوگ ہو۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہو کر سامنے آتی ہے کہ ملک کے عروج و زوال میں انفراد و اجتماعی رویوں کے ساتھ ساتھ مشیروں کا ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہونا بھی شرط ہے کہ یہی لوگ ملک اور بادشاہوں کے زوال کا باعث بھی بنتے ہیں اور یہی وہ افراد ہوتے ہیں جو ملکی معیشت اور استحکام میں اپنا مثبت کردار ادا کر کے ترقی و تعمیر میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اگر حالیہ ملکی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو قیمتوں کی گرانی،سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شور شرابہ اور منفی پراپیگنڈہ سے ایسے لگتا ہے کہ نعوذ باللہ ملک اب زیادہ دیر دنیا کے نقشہ پر نہیں رہ پائے گا۔اس طوفان بدتمیزی میں اتنا کردار حکومت کا نہیں جتنا کہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کا ہے کہ ایک شے کی قیمت اتنا حکومت نہیں بڑھاتی جتنا کہ دوکاندار بڑھا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ جی کیا کیا جائے حکومت نے مہنگائی ہی بہت کر دی ہے جس کی ایک مثال روٹی کے مہنگے ہونے کا پراپیگنڈہ ہے۔جمہوری حکومتوں میں حزب اختلاف ایسا ہمیشہ سے ہی کرتی ہے کہ کسی طریقے سے مخالف حکومت کو نہ چلنے دیا جائے ۔ایسا ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک ہم سب کا نہیں ہے یا کہ اکیلے حکومت کرنے والوں کا ہے،لہذا ملکی تعمیر و ترقی میں ہمیں اپنا اپنا مثبت کردار ادا کر کے اس کے ذرے ذرے کوتابندہ درخشاں کرنا ہے۔