ضیاالاسلام محکمہ جنگلات میں میرے سب ڈویژنل فاریسٹ آفیسر ہوا کرتے تھے۔ایک دن موسم گرما میں ان کے گھر کا برقی میٹر بوجہ مون سون کی موسلادھار بارش کام کرنے سے معزور ہو گیا تو انہوں نے واپڈا آفس میں ایک شکائت درج کروائی کہ ان کا میٹر وجہ مذکور کام کرنے سے قاصر ہے لہذا مناسب کارروائی فرماکر اسے تبدیل کر دیا جائے۔درخواست چونکہ معقول تھی اس لئے اس پر بر وقت عمل در آمد نہ ہو سکا ۔کوئی ایک ہفتہ انتظار بعد انہوں نے دوبارہ واپڈا دفتر سے رابطہ کیا تو ملازمیں کا وہی روائتی انداز کہ یہ مسئلہ ہے وہ مسئلہ ہے یا پھر کچھ دے دلا کر میٹر تبدیل کر والیں۔موصوف نے ایک پیپر دفتر سے لیا اور ایک درخواست داخل دفتر کروا دیا اس شعر کے آغاز کے ساتھ کہ
دنیا میں ہر شخص کا ایمان بکا ہے۔۔۔قیمت مجھے معلوم ہے تم نام بتائو۔بس پھر کیا دفتر تھا اور جناب کے چکر اور انہی چکروں میں میرے ایک دوست نے دے دلا کے میٹر لگوا دیا اور میرے فاریسٹ آفیسر آج تک سمجھ رہے ہیں کہ ان کی درخواست کے رد عمل کے نتیجہ میں میٹر لگا۔مگر یہ ایک حقیقت ہے جس سے پاکستان میں کسی کو بھی انکار نہیں ہونا چاہئے کہ یہاں اگر کوئی ایمان نہیں بیچ رہا تو وہ خریدار ضرور ہے اور یہاں وہی ایماندار ہے جس کی رشوت لینے کی پہنچ نہ ہو یا پھر وہ بزدل ہو۔وگرنہ سچ وہی ہے جو ضیا صاحب نے درخواست میں لکھا تھا کہ ہر کوئی اپنے ضمیر کی قیمت لگائے بیٹھا ہے۔ابراہم لنکن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے دور حکومت میں ایک شخص نے وائٹ ہائوس کو خریدنے کی کوشش کی ،کہتے ہیں کہ ابراہم اور خریدار وائٹ ہائوس کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے جیسے جیسے دونوں سیڑھیاں چڑھتے جاتے تھے وہ شخص ہر سیڑھی پر قیمت بڑھاتا جاتا ،جب دونوں آخری سیڑھی پر پہنچے تو ابراہم نے اسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا یہ کہہ کر کہ یہ خریدار بنتا یا نہ بنتا مگر میرا دل کرنے لگ گیا تھا کہ اس پیلس کو بیچ ہی دوں۔
پاکستان میں بھی پچھلے چند دنوں سے ایک شور اٹھا ہوا ہے کہ ملک ارشد جو ایک سینئر جج ہیں اور سب جانتے ہیں کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم کے خلاف ایک ریفرنس میں ان کے خلاف فیصلہ سنایا ہوا ہے،ان کی ایک وڈیو میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس کے بعد انہیں ملازمت سے سبکدوش بھی کر دیا گیا ہے،وڈیو کا فرانزک کروایا جائے گا،فیصلہ آئے گا،کون کون لوگ اس میں شامل ہیں،کل کو اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں،عدالتی نظام پر یہ ایک سوالیہ نشان ہوگا۔کئی ایسے سوالات ہیں جو ہم سب کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں اور سب ان کے جوابات بھی جاننا چاہتے ہونگے۔مگر اس سلسلہ میں ہر کوئی اپنی ہی دوا بیچ رہا ہے۔
حزب اقتدار کا کہنا ہے کہ وڈیو پرانی ہے اور ناصر بٹ سابق حکومت کا ایک آلہ کار ہے اور اس نے سابق حکومت کے کہنے پر یہ حرکت کی،بالکل درست مگر دھواں تو وہیں اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہوتی ہے اگرنہ تو راگھ اور گردوغبار ہی ہوتا ہے۔جبکہ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ جج پر حکومتی اداروں کا پریشر ہے اور اس نے یہ فیصلہ کسی طاقت کے زیر اثر کیا ہے۔
حزب اختلاف بالکل ٹھیک کہتی ہے مگر اس حقیقت سے اپوزیشن کا کوئی رکن بھی اقرار نہیں کر رہا ہے کہ ان کے ناصر بٹ کے ساتھ تعلق ہے اگر نہیں ہے تو پھر وہ کون سے ایسے احسانات تھے کہ جس کو چکانے کے لئے ناصر بٹ نے یہ کام کیا؟ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ایک حقیقت ہو کہ ناصر بٹ نے بھی ارشد ملک کے ضمیر کی قیمت لگا دی ہو ،اس مقصد میں وہ کامیاب ہوا کہ نہیں اس کا فیصلہ تو آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا تاہم جج صاحب نے جو بیان حلفی جمع کروایا ہے اس سے تو صاف لگتا ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کے ضمیر کی قیمت لگانے کی کوشش ضرور کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔لیکن ایک بات میری طرح آپ کے ذہنوں میں بھی ہوگی کہ اگر ان کا بیان حلفی مبنی بر حقیقت ہے تو پھر ارشد ملک کے ناصر بٹ کے ساتھ کس طرح کے تعلقات تھے ک وہ ان کے گھر جاکر ملاقاتیں کرتا رہا ہے۔یہ ایک سوالیہ نشان ہے ارشد ملک کی ذات کے ساتھ ساتھ ہمارے نظام عدلیہ پر بھی۔