حکومتی رِٹ اور سستا پیٹرول غائب دستیاب کب ہو گا

Petrol Shortage

Petrol Shortage

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

حکمران مان لیں کہ اِن سے ضرور ایک نہیں بل کہ کئی ایسی بھول اورکوتاہیاں ہورہی ہیں ۔آہ ، تب ہی عوامی خدمات میں خود کو فنا کردینے والے مسٹر وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں چار سوعوام کی ایک یہی پکارہے کہ چینی سستی کہاں ہے؟اور پیٹرول سستا ہوکر کہاں غائب ہوگیاہے؟ غائب حکومتی رِٹ اور سستا پیٹرول اورچینی سستی عوام کو کب دستیاب ہوگی؟

بیشک ،موجودہ صُورتِ حال میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کے رویوں سے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مٹھی بھر حکمران طبقے نے عوام کو بے کارپرزہ سمجھ لیا ہے۔ اِسی لئے جس کا جیسا جی چاہتاہے۔ وہ عوام پر طرح طرح کے بحرانوں ، مہنگائی اور مسائل کے پہاڑ ڈھادیتاہے ۔

اَب اِسی کو ہی دیکھ لیں کہ حکومت نے بڑی مشکلوں سے کفِ افسوس کے ساتھ دانت پیس کر انتہائی مجبوری کے عالم میں پیٹرول کی قیمت کم کی ہے۔تو اِس کے ثمرات بھی مُلک کے غریب عوام کے دامن میں نہیں پہنچ سکے ہیں؛ آج پیٹرول سستا ہو کر بھی عوام الناس کی پہنچ میں آنے سے پہلے ہی غائب ہوگیاہے یا کردیاگیاہے؟ اِس حال میں عوام یہ سوچ رہے ہیں کیا اِسے غائب کرنے یا کرانے کے لئے ہی حکومت نے پیٹرول کی قیمت کم کی تھی کہ یہ عوام کی پہنچ سے دور ہوجائے کہ نظرسے ہی اوجھل ہوکر غائب ہوجائے۔

ہمارے یہاں بد قسمتی سے پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا تعین وہ طبقہ کرتا ہے۔ جس کو اپنی جائز تنخواہ کا تو پتہ نہیں ہوتا ہے۔ہاں البتہ،اِس طبنقے کواپنی اُوپر نیچے کی آمدنی کا خوب پتہ ہوتا ہے،اگرہمارے حکمرانوں کو اپنی اصل حلال اور جائز تنخواہ یا آمدنی سے اپنے کنبے کے رزق اور اخراجات پورے کرنے اور دیگر ضروریات زندگی کے لئے خریداری کرنی پڑے؛ تو عین ممکن ہے کہ پاکستان سے بھی مہنگائی نیست ونابود ہوجائے۔مگر آہ ..!! رواں حکومت میں بھی ایسے ہی طبقے کی اجارہ داری ہے۔جس کو اپنی اصل حلال آمدنی کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ جن کی وجہ عوام الناس کو خمیازہ بھگتنا پڑرہاہے۔

مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ کسی ماں کے بیٹے میں اتنی ہمت کبھی پیدا نہیں ہوگی کہ کوئی ماں کا بیٹااپنے گھرکے لئے رزق حلال اپنی حلال آمدنی سے پوراکرے اور یوٹیلیٹی کا بل اِسی جائز آمدنی سے ادا کرے۔ کیوں کہ ہمارے یہاں حکمرانوں ، سیاستدانوں اور افسرشاہی کی شکل میں جتنے بھی افراد پیدا ہوتے ہیں۔اُنہوں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے گھرانے کے اخراجات اپنی جائز اور حلال تنخواہ سے پوراکریں گے ۔اِنہیں اپنی جائز اور حلال آمدنی کا تو پتہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ کتنی ہے ؟ اِس لئے اِن کا اِس جانب کبھی خیال بھی نہیں جاتا ہے۔اِن کا توبس اپنا سب کچھ اُوپر کی ایسی ویسی آمدنی سے ہی چل رہاہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ معزز بھی ایسے ہی لوگ کہلائے اور جانے جاتے ہیں۔ اِسی لئے غریبوں کے مُلکِ پاکستان میں حقِ حکمرانی اور داداگیری کا بھی ایسے ہی طبقے کے ہاتھ لگتاہے۔ جنہیں اپنی اصل حلال اور جائز آمدنی اور تنخواہ کا کچھ معلوم نہیں ہوتا ہے۔ جن کا پھربھی سب کچھ جائز اور حق کے دائرے کار میں چل رہاہوتا ہے۔

اَب مہنگا ئی سے بدحال عوام کو سو فیصد یقین ہوگیاہے کہ پاکستان تحریک اِنصاف کی 23,22ما ہ کی حکومت نے عوامی فلاح و بہبود اور ریلیف کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ آج اگر عوام کو بڑے عرصے اُمید کی لولی پاپ دینے کے بعد ریلیف کے معاملے میں کچھ کیا بھی ہے؛ تووہ بھی صرف باب المہنگائی پیٹرول سستاکیا ہے۔مگر راقم الحرف کو یہ دُکھ کھائے جائے رہاہے کہ اِس کے باوجود بھی باقی دیگر اشیائے ضروریہ مہنگی کی مہنگی ہیں کیوں؟۔

آج حکومت نے یہ کیسا پیٹرول سستاکیا ہے؟ وہ بھی پیٹرول پمپس سے غائب ہوگیاہے۔ رودھو کراور در در کی ٹھوکریں کھا نے کے بعد سستے پیٹرول کے حصول کے لئے بھی عوام کواِس آگ برستے سورج کی تپش اور قیامت خیز گرمی میں میلوں سفر طے کرکے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑاہونے کے بعدچندلیٹرز پیٹرول کا ملنا ممکن ہورہاہے۔تما م تر حکومتی وعدے اور دعووں کے باوجود بھی جابجا عالم یہ ہے کہ کراچی سے کشمور تک عوام کے لئے سستے پیٹرول کا حصول بھی مشکل ترین ہوگیاہے ۔سستی چینی کا ملناتوپہلے ہی مشکل عمل ہوگیاہے۔

تعجب ہے کہ اِس پر بھی وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ ہماری حکومت میں مہنگائی کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا اور مُلک کے طول و ارض میں سستائی کا بول بالا ہوگا اور مہنگائی کا منہ کالا ہوگا ۔کیوں اور کیسے؟ حکومت مخالف ٹولے اور سازشی عناصر کی وجہ سے سستی چینی اور سستے پیٹرول کا حصول عذاب بن گیاہے ،بتایا جائے کہ چینی، آٹے اور پیٹرول کے مصنوعی بحران کے درپردہ کون ملوث ہے؟ کسی دباو ¿ میں آئے بغیرکڑا احتساب کیا جائے گا۔ایسے بہت سے سیراب نما دعوے وزیراعظم اور اِن کے حکومتی اراکین کرنے کے لئے دن رات میدان میں اُترکر حکومت مخالف طبقے سے مقابلے کررہے ہیں۔ مگرپھر بھی آج عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر وزیراعظم عمران خان اور حکومتی اراکین مُلک اور عوام کے ساتھ اتنے ہی مخلص ہیں: تو پھرکرپٹ عناصر کو کیفرکردارتک پہنچانے میں مصالحت پسندی کا شکار کیوں ہورہے ہیں؟ایسا نہیں ہے تو پر قومی چوروں ،لٹیروں اور کرپٹ عناصر کوجلد ازجلد کڑی سزائیں دیں ۔ ورنہ اپنی یہ ساری ڈرامہ بازی بند کریں۔ اَب بہت ہوچکاہے۔

پاکستانیوں کا اکثر سوہن حلوے (کراچی حلوے) کی طرح سخت آمریت ، ریت کے ڈھیر جیسی سِول حکومتوں اور سوجھی کے حلوے کی طرح کی اپوزیشن سے سامنارہاہے ۔ آج تک پاکستان اور پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں خاص قسم کی حکمران اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے ساتھ اقتدار میں آتے رہے ہیں ۔موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی ہی طرح ہے۔ مگر اِس کی خاص بات یہ ہے کہ آج رواں حکومت نے اسٹیج پر چور پولیس کا جیساگیم سجایا ہوا ہے؛ اِس کی بھی مثال ملنی مشکل ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے اِس کے سِواحکومت کو کچھ کرنانہیں آتاہے۔کیااِسی چور پولیس کے کھیل میں حکومت اپنا وقت گزارکرجانے کا ارادہ رکھتی ہے؟ کیوں کہ اَب تک اِس کھیل میں حکومت جس برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی لٹیروں ، چوروں اور کرپٹ ٹولوں کو پکڑرہی ہے یہ بھی سب جانتے ہیں ۔مگر اِس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے یہی قومی چورعدل کرنے والے اداروں سے رہائی پالیتے ہیں؛یوں حکومت کے سارے چور پولیس کے پکڑم پکڑائی والے کھیل کا بیڑاغرق ہوجاتاہے۔حکومت اور چور پولیس کا کھیل جیسا بھی ہے مگر جب احتساب اور اِنصاف فراہم کرنے والے ادارے عدم ثبوتوں اور شواہد کے گورکھ دھن کا فائدہ دے کر قومی چوروں ، لیٹروں اورکرپٹ ٹولوں کو رہائی دے دیتے ہیں؛ اِس طرح ساری حکومتی کوششوں پر پانی پھر جاتاہے ؛جس کے بعد مُلک بھر میں ہر نئے دن کے ساتھ ایک نئی بحث چھڑجاتی ہے۔

کہاجاتا ہے کہ ہمارے یہاں سوہن حلوے کی طرح سخت آمریت کے بعد ہمیشہ ریت کے ڈھیر جیسی حکومتیں اور سوجھی کے حلوے کی طرح نرم ملائم اور فرینڈلی اپوزیشن( جِسے کبھی اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہواہے کہ اِس کا حقیقی رول کیاہے اور کیسا ہونا چاہئے ؟) بنتی آئی ہیں۔آج جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو حکومتیں ہی اپنا کام ٹھیک طرح انجام دے سکی ہیں؛ اور نہ ہی اپوزیشن نے کبھی اپنا اصل رنگ روپ دکھایاہے۔اِسی لئے ہمیشہ سے ہی سب کی حیثیت پانی کے بلبلے جیسی رہی ہے اورشاید رہے گی۔بیچارے عوام بھی ہمیشہ بحرانوں، مہنگائی اور مسائل کی دلدل میں پڑے رہیں گے۔ (ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com