تحریر : عتیق الرحمٰن موجودہ حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کو ہیں جبکہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عدالتی کاروائی سے بچنے کے لیے پرسرار بیماری اور اسکے علاج کے لیے ملک سے باہر جانا کچھ دن میڈیا کی زینت بنا جسکے توڑ اور آنے والے الیکشن میں عوام کو گمراہ کرنے کےلیے حکومت بہتر کارکردگی کا راگ الاپ رہی ہے جبکہ اپوزیشن اس کے برعکس موقف رکھتی ہے. ایک وزیر موصوف تو یہ تک کہ گئے کہ اسحاق ڈار جنہوں نے پاکستان کی اقتصادی حالت کی بہتری کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیئے اس کے صلے میں انہیں ایوارڈ دینے کی جگہ ان پر کیس قائم کر دیئے گئے ہیں۔
ایسے وقت میں یہ بات ضروری تھا کہ اقتصادی اعداد و شمار کی روشنی میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بیان اور اس کا دیگر ممالک سے تقابل کیا جائے تاکہ سادہ لوح عوام یہ جان سکیں کہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے کہاں کھڑا ہے-
پاکستان جو کہ 207 ملین آبادی کے ساتھ دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اسکی ٹوٹل معیشت جی ڈی پی صرف 306 بلین ڈالرز ہے جو کہ عالمی رینکنگ میں 42 ویں نمبر پر آتی ہے جب کہ کراچی جتنا ایک چھوٹا سا ملک سنگاپور دنیا کی 37 ویں بڑی معیشت ہے. ہمارے ہمسائے میں موجود انڈیا 2239 بلین ڈالر ز کے ساتھ چھٹی اور چائنا 12.40 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔
پاکستان کی فی کس آمدنی 1629 ڈالر ہے اس لحاظ سے ہر پاکستانی کی آمدنی 146 ممالک کی فی کس آمدنی سے کم ہے جبکہ بنگلہ دیش اور انڈیا جس کی غربت کے قصے ہمارے یہاں زبان زد عام ہیں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان کے برابر اور انڈیا کی 1852 ڈالر کے ساتھ پاکستان سے زیادہ ہے.سنگاپور کی اوسط آمدنی 53880 ڈالر ہے جو کہ دنیا میں 9 ویں نمبر پر زیادہ آمدنی والا ملک ہے جبکہ سنگاپور میں ٹوٹل لیبر فورس 3.661 ملین جبکہ پاکستان میں 60 ملین ہے سنگاپور اپنی لیبر فورس کی صلاحیتوں پر انویسٹ اور اسے بہتر بنا کے ہم سے آگے نکل گیا جبکہ ہم ہر قسم کے وسائل اور زرائع رکھنے کے باوجود پسماندہ ہیں.سنگاپور میں نہ ہی پیٹرول ہے اور نہ ہی سونے اور دیگر معدنیات کے ذخائر اور نہ ہی زرعی زمین- موجودہ حکومت تاریخ میں سب سے زیادہ قرض لے کر ملکی معیشت کو اب تک کی اونچی سطح پر لےجانے کے دعوے کرتی ہے جب اسکا دوسرے ممالک سے تقابل کیا جائے تو حقیقت کھل کے عیاں ہوجاتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت 19.8 بلین ڈالر ز جبکہ بنگلہ دیش جو کہ 1971 میں ہم سے علیحدہ ہوا اور رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے چھوٹا ہے اس کے ذخائر 33.2 بلین ڈالرز ہیں- انڈیا 402 بلین ڈالرز، چین 3000 بلین ڈالرز اور چھوٹے سے ملک سنگاپور کے زرمبادلہ کے ذخائر 279 بلین ڈالرز ہیں۔
پاکستانی ایکسپورٹ 20 سال پہلے جہاں کھڑی تھی آج بھی 21.938 بلین ڈالرز پر ہی ہے جبکہ بنگلہ دیش 34.02 بلین ڈالرز ، انڈیا 275.8 بلین ڈالرز ، چین 2.26 ٹریلین ڈالرز اور سنگاپور 329.7 بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ کر رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومتوں نے اقتصادی میدان میں کیسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔
پاکستان کی درآمدات 21.938 بلین ڈالرز اور درآمدات 48.506 بلین ڈالرز کے درمیان کوئی تناسب نہیں اور اگر بیرون ملک مقیم 90 ملین پاکستانی فارن کرنسی کی صورت میں19.3 بلین ڈالرز سالانہ زرمبادلہ نہ بھیجیں تو حکومت اس قابل بھی نہیں کہ وہ ایک سال کے درآمدات کی ادائیگی کر سکے۔
پاکستان کی آمدنی 47 بلین ڈالر ہے جبکہ سنگاپور 70 بلین ڈالر کی آمدنی رکھتا ہے جو ملک کماتا ہی نہیں تو عوام پر خرچ کیا کرنا یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد تاریخ کی اونچی ترین سطح پر ہے اور عوام بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں 21 صدی میں بھی پنجاب میں 10 ملین، خیبر پختون خواہ میں 2.2 ملین، سندھ 6 ملین، اور بلوچستان میں 1.8 ملین بچے سکول ہی نہیں جارہے۔ تعلیم کے بغیر ترقی وہ دیوانے کا خواب ہے جو کہ کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا۔ عوام کی اکثریت اس وقت پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ رہی ہے اور جو اس کے وسائل نہیں رکھتے انکے بچے زیور تعلیم سے ہی محروم ہیں۔ تعلیمی معیار کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہی ملک کی ڈگری کوئی یونیورسٹی ماننے کو تیار نہیں اور داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ لیا جاتا ہے ہائیر ایجوکیشن کے لیے یونیورسٹیز کی تعداد انتہائی کم ہے اور جمہوری ادوار میں قابل ذکر تعداد میں یونیورسٹیز بنائی ہی نہیں گئیں۔
صحت کے معیار کا یہ عالم ہے کہ جو لوگ سرکاری ہسپتالوں میں کسی طرح پہنچ ہی جاتے ہیں انہیں بھی سہولیات میسر نہیں حد تو یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش بھی اب ہسپتالوں کے کوریڈور میں ہورہی ہیں۔
اگر یہی ترقی ہے تو پاکستان اس وقت دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے جہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اور عوام چین کی بانسری بجارہے ہیں. پاکستان کی اقتصادی حالت بدحالی کی ہی وجہ سے امریکہ اتنی قربانیوں کے باوجود ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے کیونکہ جو مانگ کے جیتے ہیں انکی عزت اور مرضی نہیں ہوتی، دینے والا اپنی شرائط پر عمل درامد کرواتا ہے۔اب بھی وقت ہے جمہوری حکومتیں ہوش کے ناخن لیں ایسا نہ ہو کہ عوام ان سے ہی نجاد کے بارے میں سوچنے لگیں کیونکہ جب پیٹ بھرنے کے لیے روٹی نہ ہو اور عزت نفس کو مجروح کیا جائے تو قومیں انقلاب کا دروازہ کھٹکاتی ہیں۔