اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت نے کلبھوشن جادھو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔
حکومت نے کلبھوشن جادھو کی سزا کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے جس میں حکومت نے ایک درخواست دائر کی ہے جو حال ہی میں جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس کے تحت دائر کی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے درخواست میں کلبھوشن جادھو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
وزارت قانون و انصاف کی جانب سے دائر درخواست میں وفاق کو بذریعہ سیکرٹری دفاع اور جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ جی ایچ کیو کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ کلبھوشن جادھو نے سزا کے خلاف درخواست دائر کرنے سے انکار کیا اور کلبھوشن بھارت کی معاونت کے بغیر پاکستان میں وکیل مقرر نہیں کر سکتا جب کہ بھارت بھی آرڈیننس کے تحت سہولت حاصل کرنے سے گریزاں ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت کلبھوشن جادھو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو۔
3 مارچ 2016 کو پاکستان نے ملک میں دہشتگردوں کے نیٹ ورک کیخلاف ایک اہم کامیابی حاصل کرنے کا اعلان کیا اور بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کو ایران کے سرحد ی علاقے ساروان سے پاکستانی صوبے بلوچستان کے علاقے مشاخیل میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا۔ بھارتی جاسوس کے قبضے سے پاسپورٹ ، مختلف دستاویزات، نقشے اور حساس آلات برآمد ہو ئے۔
ابتدائی تفتیش میں بھارتی جاسوس نے اعتراف کیا کہ وہ انڈین نیوی میں حاضر سروس کمانڈر رینک کا افسر ہے اور 2013 سے خفیہ ایجنسی ‘را’ کیلئے کام کررہا ہے جبکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے، بلوچستان اور کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنا اس کا اہم مشن تھا۔
بھارتی جاسوس چابہار میں مسلم شناخت کے ساتھ بطور بزنس مین کام کررہا تھا اور 2003 ، 2004 میں کراچی بھی آیا جبکہ بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کی کئی وارداتوں میں بھی اس کے نیٹ ورک کا ہاتھ تھا۔
24 مارچ 2016 کو پاکستان نے ابتدائی تحقیقات کے نتائج میڈیا کے سامنے رکھے، 25 مارچ 2016 کو پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کر کے ‘را’ کے جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے اور کراچی ، بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا۔ اسی روز پاکستان نے P5 اور یورپی یونین کو بھی کلبھوشن جادھو کے معاملے پر بریف کیا۔
29 مارچ 2016 کو کلبھوشن جادھو کے اعترافی بیان کی ویڈیو جاری کی گئی، 8 اپریل 2016 کو ابتدائی ایف آئی آر سی ٹی ڈی کوئٹہ میں درج کی گئی جس کے بعد باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔
2 مئی 2016 سے 22 مئی 2016 تک بھارتی جاسوس سے تفتیش کی گئی جبکہ 12 جولائی 2016 کو جے آئی ٹی کی تشکیل ہوئی۔
22 جولائی 2016 کو کلبھوشن جادھو نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا۔ 6 ستمبر 2016 کو کلبھوشن کے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان کی روشنی میں اس کی معاونت کرنے والے 15افراد کے خلاف سی ٹی ڈی کوئٹہ میں دوسری ایف آئی آر درج کی گئی۔
21 ستمبر 2016 کو کلبھوشن جادھو کیخلاف ملٹری کورٹ میں کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ 24 ستمبر کو شہادتیں ریکارڈ کی گئیں جس کے بعد تین سے زائد سماعتیں ہوئی جس میں چوتھی سماعت 12 فروری 2017 کوہوئی۔
23 جنوری 2017 کو پاکستان نے کلبھوشن کیس میں تحقیقات کیلئے بھارتی حکومت سے معاونت کی درخواست کی۔
21 مارچ 2017 کو پاکستان نے بھارت سے تحقیقات میں معاونت کا مؤقف ایک بار پھر دہرایا اور یہ واضح کیا کہ کلبھوشن جادھو تک کونسلر رسائی کیلئے معلومات کا تبادلہ ضروری ہے۔
10 اپریل 2017 کو ملٹری کورٹ نے کلبھوشن جادھو کے پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت کا حکم دیا جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی۔
بھارت کی جانب سے عالمی عدالت میں معاملہ لے جانے کے سبب کلبھوشن کی سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 25 دسمبر 2017 کو کلبھوشن جادھو کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کرائی جب کہ اس ملاقات میں کلبھوشن نے والدہ اور اہلیہ کے سامنے جاسوسی کا اعتراف کیا۔