تحریر: صباء نعیم پیپلزپارٹی نے بھی اگلے مہینے سڑکوں پر آنے کا اعلان کردیا ہے جو جماعتیں پہلے سے سڑکوں پر ہیں ان میں تحریک انصاف، عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ شامل ہیں۔ یہ سب جماعتیں کہنے کو تو متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہیں لیکن سڑکوں پر ان کی سرگرمیاں الگ الگ ہیں، ابھی تک تو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے جلوس اور ریلیاں بھی کہیں اکٹھے نہیں ہوسکے، 3 ستمبر کو عمران خان گوجرانوالہ سے لاہور آنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ لاہور آئیں گے تو حکمرانوں کو جدّہ بھاگنے کی مہلت نہیں ملے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کی حکومت کا خاتمہ تو عمران خان پہلے ہی کر چکے ہوں گے تو پیپلزپارٹی کس کے خلاف تحریک چلائے گی؟ اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ حکومت کے جانے کی خبروں کا مطلب دل پشوری کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو جن پارٹیوں نے بھی تحریک وغیرہ چلانی ہے وہ یہ کام 31اگست سے پہلے پہلے کرلیتیں کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید کے بقول تو یہ حکومت اس وقت تک ختم ہورہی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اپنے اس اعلان کو کوئی خفیہ تو نہیں رکھا ہوا
انہوں نے یہ اعلان باقاعدہ طور پر کر رکھا ہے، چینلوں پر آن ائیر کیا جا چکا ہے، اخبارات میں چھپ چکا ہے، اب دو باتیں ہیں یا تو یہ حکومت نہیں جارہی یا پیپلزپارٹی کی تحریک نہیں چل رہی اور عمران خان کا لاہور آنا بھی بعد از وقت ہوگا۔ انہوں نے آنا ہے تو پہلے آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت اپوزیشن میں دراڑ نہیں ڈال سکے گی البتہ اپوزیشن جماعتیں چاہیں تو خود یہ فریضہ بطریق احسن انجام دے سکتی ہیں۔ مثلاً ایک اطلاع یہ ہے کہ ٹی او آر کمیٹی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور شیخ رشید احمد میں اس وقت تکرار ہوگئی، جب شیخ رشید نے خورشید شاہ سے کہا کہ وہ ہمیشہ حکومت کے بارے میں نرم گوشہ کیوں رکھتے ہیں جس پر خورشید شاہ نے کہا کہ شیخ صاحب آپ بھی چودھری نثار کے لیے نرم رویہ رکھتے ہیں جس پر شیخ رشید نے کہا کہ وہ صرف نوازشریف اور حکومت کے خلاف ہیں ان کی چودھری نثار سے کوئی لڑائی نہیں، اس پر چودھری اعتزاز احسن نے مداخلت کرکے خورشید شاہ کو مزید بات کرنے سے روک دیا۔
Sheikh Rashid Ahmed
ایک زمانے میں جب قائد حزب اختلاف کا تقرر ہورہا تھا شیخ رشید احمد نے کوشش کی تھی کہ یہ عہدہ خورشید شاہ کے پاس نہ جائے وہ عمران خان کو قائد حزب اختلاف بنانا چاہتے تھے لیکن نمبر گیم کے ذریعے فیصلہ خورشید شاہ کے حق میں ہوگیا، اس وقت ایم کیو ایم نے بھی اپنی حمایت کا وزن خورشید شاہ کے حق میں ڈال دیا کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان اور ایم کیو ایم میں تلخیاں ذرا زیادہ تھیں۔ کراچی میں آپا زہرہ کا قتل ہوچکا تھا جس میں عمران خان براہ راست الطاف حسین کو ملوث کررہے تھے اور انہیں قتل کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ وہ الطاف حسین کے خلاف لندن کی عدالت میں مقدمہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ وہ لندن گئے بھی تھے لیکن بعد میں مقدمہ وغیرہ سب درمیان میں رہ گئے حتیٰ کہ جب عمران خان نے ریحام خان سے شادی کی تو انہیں نائن زیرو کے دورے کی دعوت دی گئی، تحائف کا ذکر بھی ہوتا رہا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ تحائف عمران خان کو بھیجے گئے تھے یا نہیں۔ اس پس منظر میں ایم کیو ایم قائد حزب اختلاف کے لیے عمران خان کو ووٹ تو نہیں دے سکتی تھی۔
چنانچہ شیخ رشید کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ دھرنے کے دنوں میں عمران خان قائد حزب اختلاف کو وزیراعظم کا منشی کہہ کر یاد کرتے تھے لیکن اب دو سال کے دوران یہ تبدیلی آگئی ہے کہ دونوں کی مشترکہ تحریک کی باتیں ہونے لگی ہیں لیکن لگتا نہیں دونوں جماعتیں اکٹھی تحریک چلا سکیں گی۔ اپوزیشن جماعتیں کتنی متحد ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ایم کیو ایم ٹی او آر کمیٹی سے ایک بار پھر الگ ہوگئی ہے۔ پہلے بھی متحدہ نے اس کمیٹی کو لاحاصل قرار دیا تھا۔ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی ہے۔ متحدہ کے دفاتر کے ذمہ داروں ، منتخب نمائندوں اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں اور اس ظلم و ناانصافی کے خلاف ٹی او آر کمیٹی میں کوئی بات نہیں کی جارہی۔ اس لیے متحدہ اس سے لا تعلقی کا اعلان کرتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جماعت اسلامی بھی وزیراعظم سمیت کسی فرد واحد کے خلاف ٹی او آر بنانے کے حق میں نہیں۔
Opposition Parties
ان دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ ٹی او آر کسی فرد واحد کے خلاف نہیں ہونے چاہئیں، یہی موقف حکومت کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ متحدہ اپوزیشن کی ایک جماعت تو ویسے کمیٹی سے الگ ہوگئی جبکہ دو جماعتوں کا موقف حکومت کے قریب تر ہے، ایسی صورت میں اگر اپوزیشن میں دراڑ پڑی ہوئی ہے، یا اس کا اندیشہ ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔ حکومت پر یا خود اپوزیشن پر؟ اب یہ معاملہ اہم ہے کہ کیا ٹی او آر کے معاملے پر حکومت کوئی لچک دکھائے گی یا نہیں؟ اپوزیشن نے اس سلسلے میں سپیکر سے ضمانت طلب کی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب اس ضمن میں سپیکر کا کردار زیادہ اہم ہوگیا ہے۔
ویسے بھی عمران خان اور وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے ریفرنس سپیکر کے پاس جمع ہیں جن پر انہیں فیصلہ کرنا ہے تو کیا ان ریفرنسوں اور ٹی او آر کی کمیٹی کا کوئی باہمی تعلق بھی ہے؟ اگر اپوزیشن ٹی او آر سے مطمئن ہوگئی تو پھر کیا تحریک چلانے کا اعلان واپس لے لیا جائیگا؟ جس کا اظہار سید خورشید شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا۔ لگتا ہے سپیکر کی مصالحتی کوششیں اور اپوزیشن کی حکمت عملی ساتھ ساتھ چلے گا۔