حکومتی عزم اور پاکستانی مسائل

Pakistan

Pakistan

آج ایک طرف دیکھیں تو یہ ملک مسائل کی آماجگاہ بنا ہو ا ہے وہ کون سا مسئلہ ہے جو اس ملک کو لاحق نہیں امن سے لیکر روزگار تک ہر بنیادی چیز کے حصول میں دقت ہی دقت ہے۔ لیکن ہمارا ارباب اقتدار طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ ہم عزم مصمم کر چکیں ہے کہ ہم اس ملک کو مسائل سے نجات دلوائیں گے ۔ ہم دیکھ رہیں ہیں کہ مسائل ایسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے ؟تبدیلی کی نوید صرف اتنی ہی آئی ہے کہ اب یہ نعرہ ہر سیاست دان کی زبان پہ آگیا ہے کہ ہم عوام کی فلاح و بہبود و ترقی کا عزم مصمم کر چکیں ہیں ان انقلابی نعروں کی موجودگی میںاگر کچھ معاملات سنبھلے بھی ہیںتو نہ ہونے کے برابر ہیں ۔اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے مسائل کو سمجھتی ہی نہیں ہے۔ جو بوقت ولادت ہی سونے کی چمچ منہ میں لیکر پیدا ہو ئے ہو ان کو کس طرح احساس ہو گا کہ غریب کا وقت کسطرح سے گزر بسر ہو تا ہے۔ یقینا حالات کیسے ہی کیوں نہ ہو ہر دور میں پختہ عزم و حوصلے سے مسائل ہوتے رہے ہیں مگر اُن ادوار میںمسائل کو حل کرنے کے لئے عزم کرنے کے ساتھ ساتھ قربانیاں بھی دی جاتی رہیں جب ہی تو مسائل بھی حل ہو تے رہے ہیں۔

اگرچہ ان مسائل کے حل میں کتنا ہی جانی و مالی نقصان کیوں نہ ہوا ہومگر پختہ ارادوں کی بدولت وہ ہمیشہ اپنی منزل مقصود اور مراد کا حصول کرکے ہی رہے ۔دیکھیں اللہ کے رسول ۖ نے ہر حال میں امن کو قائم و دائم رکھنے کا عزم مصمم کیاتھاتو پھرآپ ۖ نے اس کے لئے قربانیاں بھی دی۔ آپ ۖ نے قیام امن کے لئے عزم مصمم کیا ہو ا تھا اس لئے کہ آپ ۖ صرف مومنین کے لئے ہی نہیں بلکہ عالم کائنات کے لئے رحمت للعلمین ہیں اس عزم کے ساتھ ساتھ جب عملی کام کا وقت آیا تو آپۖ نے بہت قربانیاں بھی دی اس سے کتب سیرت بھری پڑی ہیں اس کی ایک ہی مثال بطور نمونہ حاضر ہے۔حضور ۖ اللہ کے نبی ۖہے اور آپ ۖ کی بعثت کا مقصد انسانوں کو ہدایت دینا تھا جس کے لئے آپۖ نے جہدِ مسلسل کی اور اس کے لئے آپ ۖکو کفار مکہ نے اتنی اذیتیںدی کہ آپۖ کو مکہ سے نکلنے پہ مجبور کردیااگر آپ ۖ چاہتے تو ان کفا ر کا مقابلہ کرتے مگر آپ ۖ کے سامنے دو چیزیں تھی ایک تو تبلیغ پہنچانا اور دوسرا قیام امن ۔مکہ یہ وہ علاقہ ہے۔

جس میں وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیشہ فخرکونین ۖ اور آپ کے اصحاب کو طرح طرح کی تکالیف دی مگر وہ ہی فتح مکہ کے دن آپۖ کے سامنے صف بصف کھڑے تھے اور سوچ رہے تھے کہ آج اس دنیامیں ہمارا آخری دن ہیں کیونکہ کفار قریش کے حال و احوال ایسے تھے کہ جو پکار پکار کہ کہہ رہے تھے کہ آج تمہیں اسلام دشمنی کا بدلہ ملنے والا ہے مگر قربان جاو۔ یہ کوئی دنیا کے بادشاہ نہیں بلکہ پیغمبر اسلام ۖہیں جن کے فیضان رحمت سے اپنے تو اپنے اغیار بھی رحمت کی امیدیں وابسطہ کئے بیٹھے ہیں فاتح مکہ کا پہلا فرمان جاری ہو ا جس کی مثال دنیا کہ کسی بھی فاتح نے آج تک نہ دی اور نہ ہی کوئی ایسی مثال وقوع پذیر ہوگی آپ ۖ نے فرمایا کہ (١)جو کعبہ میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے (٢)جو ہتھیا ر ڈال دے اس کے لئے امان ہے (٣)جو اپنا دروازہ بند کر دے اس کے لئے امان ہے ۔اس کے بعد حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ۖ ابو سفیان ایک فخر پسند آدمی ہے آپ ۖ کوئی ایسی بات فرمایا دیجیے کہ اسکا سر فخر سے بلند ہو جائے حضور ۖ نے فرمایا کہ جو ابو سفیان کے گھرمیں داخل ہو جائے اس کوبھی امان ہے۔

کون ابو سفیان؟جنگ بدر میں سرداران قریش کے مرنے کے بعد پورے عرب کا سردار ابو سفیان تھا اور بعد کی تمام جنگیں اسکی نگرانی میں ہوئی اور یہ وہ ہی ابو سفیان تھا جس نے بدر کے بعد قسم کھائی تھی کہ میں اس وقت تک غسل جنابت نہیں کروں گاکہ جب تک مسلماتوں سے بدلہ نہ لے لو پھر بدر کے دو ماہ بعدہی یہ رات کے وقت آیا اور انکو بہت یقین تھا کہ انکے ساتھ یہودی مدد کریں گے مگر جب یہ مدینہ شریف میںپہنچا تو حی بن اخطب نے تودروازہ ہی نہیں کھولا اسکے بعد یہ سلام بن مشکم سے ملا اس نے انکا استقبال کیا اور انکو تمام جنگی رازوں سے آگاہ کیا صبح کوابو سفیان نے مدینہ شریف سے تین میل دور مقام عریض پہ حملہ کیااور وہاں پہ موجود صحابی سعد بن عمیر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی شہید کر دیا اور اسکے بعد کچھ درختوں کوکاٹا اور کچھ گھروں کو آگ لگا دی ااور اپنے ان حرکتوں سے یہ سمجھا کہ شاہد اسکی قسم جو کہ بدلہ مقتولین بدر کے لئے کھائی تھی پوری ہو گئی اس کو غزوہ کو غزوہ سویق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کی اس قدر اسلام کے خلاف سخت دشمنی اور قربان جائوں فخر کونینۖ اس اخلاق کریمی پر ایسے دشمن کے لئے بھی ایسا امن عطا فرما رہے۔

Islamic Lashkar

Islamic Lashkar

ہیں کہ اس کے گھر میں داخل ہو نے والا بھی محفوظ و مامون ہے آپۖنے جب سن٨ہجری کو١٠ہزار کا لشکرلے کر حرمت مکہ کی حفاظت کرنے چلے آج اس اللہ کے گھر کی طہارت کرنے چلے جسکو کافروں کے فرسودہ نظام نے تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا تھا جسمیں ٣٦٠ بت رکھ کہ مرکز توحید کو شرک کی آماجگاہ بنا دیا تھا آج اسکوانکی غلاظت سے پاکی دلانے کے لئے چلے تو کفار کو اس بات کی خبر مل گئی تھی مگر ان لوگوں کو اس بات کا نہیں پتہ تھا کہ اسلامی لشکرمر الظہران تک آگیا ہے کفار قریش کے تین سردارابو سفیان بن حرب و حکیم بن خرام و بدیل بن ورقاء لشکر اسلام کی جاسوسی کرنے نکلے تو راستے میں انکو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ مل گئے جو اس بات پہ بہت فکر مند تھے کہ اگر آج جنگ ہوئی تو عرب پوری دنیا سے ختم ہو جائیں گے وہ رسول اللہ ۖ کا سفید خچر لے کے نکلے تھے۔

انکویہ ہی ابو سفیان مل گئے حضرت عباس نے کہا کہا کہ اے ابو سفیان آپ میرے پیچھے بیٹھ جاوں ورنہ اگر کسی مسلمان نے دیکھ لیا تو تمھیں ابھی قتل کر دیں گے ابو سفیان کو بارگاہ مصطفویۖ میں لاتے ہوئے حضر ت عمرۖ نے دیکھ لیا فورا حضورۖ کی بارگاہ میں حاضر ہوکہ عرض کی یا رسول اللہ ۖ خدا کا دشمن ابو سفیان آیا ہے اگر اجازت ہو تو اسکی گردن کاٹ دوں اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو سفیان کو لے کے آگئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ۖمیںانکو پناہ دے چکا ہو ۔ابو سفیان کے جرم؛ابو سفیان کے ایسے ناقابل معافی جرم تھے مثلاحضور ۖ مکہ میں تکالیف دینا اور بار بار مدینے پہ حملہ کرنا یہودیوں کو اشتعال دلانا یہ وہ ناقابل معافی جرم تھے جن پہ ایک دفعہ تو کیا ١٠ دفعہ بھی سزائے موت دی جاتی تو کم تھی مگر یہ کوئی دنیاوی دربار نہ تھا بلکہ فخرکونینۖکا مقدس دربار تھا آپ ۖنے اس حالت میں بھی اسکی جان بخشی کر دی صرف اس پہ ہی بس نہ کی بلکے اس پہ طرہ امتیاز یہ کہ فرمایا جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے اسکو بھی امان ہے کسی روئے زمین کے بادشاہ کی ایسی مثال ہے نہیں نہیں ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ وہ کو ئی صرف اس دنیا کے ہی بادشاہ نہیں وہ تو دو جہانوں کے مالک و مختار ہے۔

ایسی در گزر و عفو سوائے پیغمبر اسلامۖ کے اور کسی میں نہیں پائی جا سکتی انکی اس ہی اخلاق شعارعی کو دیکھ کے ابو سفیان جیساکافر بھی حضورۖ کے دامن رحمت سے وابسطہ ہو کر ”رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ” ترجمہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہے (البینہ آیت ٨)کے عظیم منصب پہ فائز ہو گئے ۔اللہ کے رسول ۖ نے ان تمام لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے حضور علیہ السلام یا آپ کے اصحاب پہ ظلم ستم کئے تھے اس ہی لئے تو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ حضور ۖ کے اخلاق کریمہ سے پھیلا۔بس اس کے بعد اسلام کو وہ عروج ملا کہ کل کائنات اس اسلام کے حلقے میں گروہ در گروہ داخل ہو نے لگی۔اگر آج ہمارے حکمران بھی اس ملک میں عوام کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔اور اس کے لئے واقعی میں عزم مصمم کرچکیں ہیں تو ایک ہی صورت ہے کہ اس عزم کے ساتھ ساتھ اس کے لئے عملی اقدام بھی کریں میںان عزم کرنے والے حکمرانوں کی توجہ کچھ ایسے مسائل کی جانب مبذول کرواتا ہو جو مسائل واقعی میں ان کے عزم کے عملے جامے کے منتظربھی ہیں۔ شہر کراچی میں عوام کا سب سے بڑا مسئلہ جو صرف حکومت کی ادنی سے توجہ کا منتظر ہے اگر حکومت واقع میں مسائل کے حل میں مخلص ہے۔

تو اس مسئلے کو فوری طور پہ حل کرے دیکھیںکراچی میں تمام کوچز اور بسوں کا کرایہ ڈیزل کے حساب سے مقرر کیا گیا تھا اب یہ تمام گاڑیاں CNGپہ چل رہیں ہیں جس دن CNGکی بندش ہو تی ہے اس دن یہ گاڑیاں مکمل بند نہیں بھی ہوتو آدھی سے زیادہ خلوت نشین ہو کر اپنے اسٹاپ پہ ہی قیام پذیر ہو تی ہے اورجو بھولے بسرے سے روڑ پہ اپنی زیارت بھی کرواتی ہے تو وہ بھی ڈیلی روٹین سے ہٹ کر کچھ زیادہ وقت کے بعد اپنے دیدار سے گنہگار عوام کو مشرف کرتی ہیں اور جو چل رہی ہو تی ہے ان کے کرایہ جات بھی زیادہ چارج کئے جاتے ہیں اور انکاکہنا یہ ہو تا ہے کہ آج CNGبند ہے۔اسکے لئے کنڑیکٹر لوگ دو طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں یا تو کرایہ زیادہ لیتے ہیں اور زیادہ نہ دینے والوں کو گاڑی سے اتار دیتے ہیں اور دوسرا حربہ یہ استعمال ہوتا ہے کہ آدھے راستے میں آکر اسٹاپ کر لیتے ہیں مثال کے طور پہ ایک گاڑی کو اتحاد ٹاون سے کورنگی جانا ہے اور اسکامجمعی کرایہ 17یا 18روپے بنتا ہے مگریہ اتحاد ٹاون سے ہی یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ” حبیب بینک تک جائیں گے” اسطرح وہاں تک کا کرایہ 15روپے وصول کر لئے جاتے ہیں اور حبیب بینک پہ پہلے سے ہی اسی ہی روٹ کی گاڑی کھڑی ہو تی ہے یہ لوگ اُس گاڑی پہ بیٹھ کہ ان کو جہاں بھی جانا ہو 15روپے پھر ادا کرتے ہیں اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کیونکہ اس پورے روٹ کی کوئی اور گاڑی ہی نہیں جوپہلے اسٹاپ سے لیکر آخری اسٹاپ پہ جائے اس طرح ایک گاڑی اگر 5منٹ کے بعد آتی ہے تو جس دن CNGنہ ہو اس وقت وہ ہی گاڑی 15منٹ کے بعد آتی ہے اس طرح نہ چاہتے ہو ئے بھی عوام کو یہ زحمت گوارہ کرنی پڑہتی ہے۔

جس سے غریب کے جیب پہ بوجھ پڑھتا ہے اور بجٹ پہ کافی اثر پڑھتا ہے اے ملک عزیز کے مسائل حل کرنے کے دعویدار حکمرانوں ان تمام گاڑیوں کے CNGہونے کا نقصان آپ کو تو کچھ نہ ہو ا مگر اس غریب عوام (جن سے آپ نے اس لئے ووٹ لئے تھے کہ آپ کے مسائل کو حل کیا جائے گا )کو یہ ہو ا کہ گیس کی بھی بندش ہو نا شروع ہو گئی جس سے گھریلوصارفین کو سخت تکلیف کا سامنا ہوا کھاناپکانے میں کافی شدت ہو رہی ہے بچے اسکول جانے سے لیٹ ہو تے ہیں جن کی وجہ سے ان کو اسکول میں سزا ملتی ہے تو دوسری جانب جوب پہ جانے والے افراد کو کوفت ہو رہی ہو تی ہے جس کی بناء پہ پورا گھر عجیب سی کشمکش میں مبتلاء ہو تا ہے اور ہر ایک شخص نفسیاتی ہو جاتا ہے۔اور پور ا گھر جہنم کا آئینہ دار بن جاتا ہے اس لئے اگر آپ اپنے عزم میں سچے ہیں تو ان گاڑیوں کو CNGکی مکمل بندش کی جائے ۔تاکہ گھریلوصارفین بآسانی اسکا حصول کر کے اپنے کام اپنے وقت پہ انجام دے سکیں۔ اگر ان کی بندش نہیںہوسکتی تو پھر ان کے کرایہ جات CNGکے ریٹ پہ مقرر کئے جائیں تاکہ عوام کوکسی طرح توریلیف مل سکے نا۔اب یہاں پہ عوام دو مسئلوں میں گرفتار ہیں ایک تو گھر میں گیس کی پریشانی ہے تو دوسری جانب کرایہ کی زیادتی جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔

اس لئے فوری طور پہ اس مسئلے کا حل کیا جائے ۔اس ہی طرح کا ایک مسئلہ اوربھی ہے کہ حکومت بڑے دعوے کررہی ہے کہ ہم بھتہ خوری و پرچی سسٹم ختم کروائیں گے۔ یقینا ہم آپ کے اس جذبے کو سہراتے ہیں کہ آپ نے بہت اچھا عزم و ارادہ کیا ہے مگر ہم آپ کی توجہ مبذول کرتے ہیں کہ جناب عالی آپ سڑکوں پر دیکھیں تو دو طرح کی ہماری پولیس ہے ایک ٹریفک پولیس اور دوسری عوامی پولیس۔اے عزم مصمم کے دعوہ کرنے والے حکمرانوںاگر آپ کبھی اپنی سیکورٹی کے بِن سڑک پہ آ کہ دیکھیں تو یہ سرعام گاڑیاں روک کر ان سے رشوت لے رہے ہو تے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں کہ وہ یہ کہہ بھی دیتے ہیں کہ اتنے پیسے دے دو نہیں تو میں 5سوکا چلان کر دوں گا پھرروتے رہوگے ۔اور اس سے ملا جلا حال ہماری دوسری پولیس کا بھی ہے اور وہ ان سے کچھ ہاتھ آگئے ہیں میں سب کی بات نہیں کرتا کچھ ہو سکتا ہے کہ شریف لوگ بھی ہومگر ہم جہاں بھی دیکھتے ہیں جس اسٹاپ پہ بھی دیکھتے ہیں یہ ہی معاملات چل رہیں ہوتے ہیںہو سکتا ہے کہ اس ادارے کے لوگ بھی اس کالم کو پڑھے اور وہ برا بھی منائیں۔ مگر مسئلے کے حل کے لئے پہلے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھنا ضروری ہے۔

جناب ایک طرف تو ہم ارباب اقتدار کی دھواں دھار تقاریر سنتے ہیں تو لگتا ہے کہ ابھی ابھی مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا مگر ساتھ میں ہی جب ہم اس طرح کے مسئلے دیکھتے ہیں تو یہ عوام بہت کچھ سوچنے پہ مجبور ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی عام شخص کسی سے 20یا30کی پرچی دیکر رشوت لے تو اس پہ کیس بن جاتا ہے وہ لاک اپ ہو جاتا ہے اور اگر وہی ہر اسٹاپ پہ ہر پولیس والا خواہ وہ ٹریفک سے ہو یا عوامی پولیس سے تو اس کو کچھ نہیں ہوتا۔ وہ بھی رشوت لے رہا ہو تا ہے دونوں کا ایک ہی جرم ہے ۔فرق یہ ہے کہ وہ عام آدمی ہے اور یہ حکومت کا آدمی ہے وہ سول ہے یا گورنمنٹ ہے۔وہ خالی بھتہ لیتا ہے مگر یہ ساتھ میں تنخواہ بھی وصول کرتا ہے۔ وہ صرف بھتہ لیتا ہے اور یہ پرچی لینے کے ساتھ ساتھ منتھلی سیلری بھی لیتا ہے ۔اب ارباب اقتدار فیصلہ کریں کہ بڑا مجرم کون ہے؟ کیا اس کے تدارک کی کوئی سبیل ہے عوام یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ ان کی ڈیوٹی کیا ہے کیا یہ لوگ اس وردی میں گورنمنٹ کی جانب سے بھتہ لینے پہ مقرر کئے گئے ہیں یا کسی اور کام پہ؟کیونکہ زیادہ طر تو یہ لوگ یہ ہی کام کررہے ہو تے ہیں مگر ان کے خلا ف کوئی بھی کاروائی کا کوئی بھی نہیں سوچتا؟ اور نہ ہی کوئی کاروائی ہوتی ہو ئی نظر آتی ہے اس لئے ارباب اقتدار سے گزارش یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل پہ توجہ دیں کیونکہ یہ وہ مسائل ہیں جن سے ہمارا ملک مزید خسارے کی طرف جارہا ہے۔

اور یہ ہمارے ملک کے لئے ایک ناسور بنتا جارہا ہے۔جس کا برائے راست تعلق ملکی و ملی معیشت پہ پڑتا ہے مثال کے طور پہ ایک گاڑی والے سے پنجاب سے لیکر کراچی تک 10ہزار روپے حکومتی اہلکاروں نے پیسے لئے۔ تو اس طرح وہ یہ پیسے بھی کرایے میں شامل کرے گااگر اس نے اپنی گاڑی 50ہزار میں لانی تھی تو اب وہ 70ہزار میں لائے گا کہ یقینی بات ہے کہ جوڑ توڑ کر کے اس نے اس کو 10ہزار دینے ہیں شاہد کوئی نہ بھی مانے اس طرح اس نے زیادہ سے زیادہ وصول کرنے ہیں اور پھر کرایہ دینے وال یہ پیسے عوام سے وصول کرے گا اس طرح سبزی یا کوئی بھی چیز لیں لیں جو 10روپے کی پائو ملنی تھی وہ اب 12سے 15روپے کی پائو ملتی ہے اسطرح اگر ایک گھر میں ایک کلو کے ساتھ 8سے 20روپے دینے پڑھتے ہیں اسطرح ہر شخص کا منتھلی بجٹ بڑھ جاتا ہے۔TVکی سیکرین پہ عوام جب یہ نعرے سنتی ہے تو وہ مطمئن نہیں ہوتی اور نہ ہی عوام صرف نعرے سن کے خوش ہو تی ہے بلکہ اس کو واقع میں صحیح معنوں میں تبدیلی چاہیے۔جس سے معیشت مضبوط ہو ملک مضبوط ہو عوام کو روزگار فراہم ہو اس لئے حکومت کو چاہیے کہ رشوت خوری جیسے مسئلے کو حل کرے تاکہ عوام کو ہر چیز سستی میسر آسکے پھرعوام کو یقین دلوانے کی حاجت نہیں کہ آپ مخلص ہیں بلکہ عوام یہ ہی کہیے گی کہ آپ نے واقعی ہی عزم مصمم کیا ہے اور آپ مساہل کے حل کرنے میں مخلص بھی ہیں ۔یہ تو میں نے کچھ ہی مسائل عرض کئے ورنہ تو اس کے علاوہ بھی کئی مسائل ہیں جو حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں اگر حکومت واقعی مسائل کے حل میں مخلص ہیں تو وہ ان تمام مسائل کی جانب توجہ کریں ۔اور پھر ان کے حل کی کوئی سبیل نکالے تاکہ یہ ملک واقعی ترقی کی راہ پہ گامزن ہو سکے۔

Mamoon Rashid

Mamoon Rashid

تحریر: مفتی مامون الرشید قادری
[email protected]
03022341334