تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج نواز حکومت کو دونومبر سے قبل ہی بنی گلہ اور کمیٹی چوک اور اِس کے آس پاس کے علاقوں کو میدان جنگ بنانے کی بھلا کیا ضرورت تھی ؟؟آج کیوں حکومت نے پی ٹی آئی کو اہمیت دی ؟؟کیوں عمران خان اور اِن کے ساتھیوں کو نظربندکردیاگیا؟؟کس لئے عمران خان اور اِن کے ساتھیوں کو کارکنان سے خطابات سے روکاگیا؟اور کیوں خود ہی حکومت نے 27اکتوبر کو انصاف یوتھ کنویشن اورپھر28اکتوبر کو کمیٹی چوک پر پی ٹی آئی کے کارکنان (مرد و خواتین )پر طاقت کا استعمال کرڈالا؟؟آخرحکومت بنی گلہ اور کمیٹی چوک کو میدانِ جنگ بنا کرپی ٹی آئی کے رہنماو ¿ں اور کارکنان پر حشر برپا کرکے کیا دِکھانا چاہتی ہے؟؟ ایسا لگتاہے کہ جیسے حکومت نے دو نومبر کا انتظار بھی نہیں کیا اور نہ تیل دیکھا اور نہ تیل کی دھار دیکھی؟؟ اوربغیر کچھ سوچے سمجھے پی ٹی آئی والوں پر طاقت کا ایسا اظہارکیا کہ ساری دنیا دیکھ رہی تھی اور تحریک ِ اِنصاف والوں پرڈھا ئے جانے والے حکومتی مظالم پر افسوس کررہی تھی۔
جمعرات اور جمعے کو ساری پاکستانی قوم اور دنیا نے دیکھاکہ حکومتی مشینری نے تحریک انصاف کے لوگوں پر کیسی بدترین شیلنگ کی اور بیدریغ لاٹھی چارج کا استعمال کیا اور پی ٹی آئی کے کارکنان کو بھیڑ بکریوں کی طرح گھسیٹ گھسیٹ کرگرفتار کیا اوراِنہیں قیدیوں کی وین میں بھر کر نامعلوم مقا م کی جا نب لے کر چلی گئی۔ اِس منظر کو دیکھ کر وہاں پر موجود کارکنا ن میں حکومت مخالف سرگرمیوں اور اشتعال انگیزی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا اور پی ٹی آئی کے کارکنا ن نے کمیٹی چوک سمیت، نا ز سیمنا، چاندی چوک اردگرد کے علاقوں میں بھی حکومت مخالف نعرے بازی کا سلسلہ شروع کردیا اور شام گئے تک مظاہرین اور حکومتی مشینری پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کے درمیان پتھراو ¿ کاایک نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری رہا ،اِس دوران شیخ رشید احمد حکومتی ناکے توڑتے ہوئے آئے اور کشیدگی کے مقام کمیٹی چوک پر تقریرکرکے چلے بھی گئے۔
مگر کوئی بھی اِس بہادر سیاستدان شیخ رشید احمد کو گرفتار نہیںکرسکا جبکہ وہ دورانِ خطاب پولیس اور ایف سی والوںکو للکارتے بھی رہے کہ ہے ”کسی میں ہمت جو مجھے گرفتار کرکے دکھائے“ مگر کسی مائی کے لعل میں ہمت نہ ہوئی کہ کوئی آگے بڑھتااور شیخیاںبھگارتے شیخ رشیداحمد کو گرفتار کرتا اور اپنے سینے پر حکومت سے تمغے سجاتا اور ترقی پاتا مگر کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ کمیٹی چوک پر آئے شیخ جی کو پکڑتا دہت تیری کی ایک شیخ رشید احمد سبکو چکمہ دے کر چلاگیااور حکومتی مشینری منہ تکتے رہ گئی بہر حال، اَب ہم بھی یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت اور حکومتی اشاروں اور احکامات کی غلام پولیس اور ایف سی والوں کے لئے بھی بڑا چیلنج ہے کہ اَب یہ کب شیخ رشید احمد کو گرفتار کرتے ہیں اور شیخ رشید احمد جن کا فخریہ کہنا ہے کہ” میں جی اُوںگا تو علی کی طرح اور مرونگا تو حسین کی طرح “ ” کمیٹی چوک پر جلسہ ہوگیااَب جو ہوگا دو نومبر کو ہوگا“ اِنہیں گرفتار کرکے اِن کی جذباتی سیاست کو دو نومبر اوراِس کے بعد کب تک خاموش کراتے ہیں۔
Sheikh Rasheed
حالانکہ حکومت کو پی ٹی آئی اور شیخ رشید احمد اور اِن جیسے دوسرے پی ٹی آئی کے دیگر رہنماو ¿ں اور کارکنان کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی حکومت کچھ روز اور خاموش رہ لیتی قبل ازوقت حکومت نے اسلا آبا د کو کنٹینرز لگا کر کیوں بند کیا ؟؟ آج اگر حکومت سب کچھ نہ کرتی تو اِس کا کیا بگڑ جاتا ؟؟ جس کام سے عدالت نے عمران خان کو روکا تھا آج بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہی کام خود حکومت نے کردیاہے اَب کیا یہ حکومت کی بوکھلاہٹ نہیں ہے؟؟ 27اور 28اکتوبر کو حکومت نے راولپنڈی میں کنٹینرز لگا کر شہر کو مفلوج کردیااور اسکولوں اور کالجزبند ہوگئے سرکاری اور نجی دفاتر میں حاضری کم رہی اور شہر کی سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ بندرہی اور شہر میںمعاملات زندگی مفلوج رہی۔ کیا حکومت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تو پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کو2نومبر کو احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے شہر کو بند کرنے سے روکتے ہوئے پارٹی کے چیئر مین عمران خان کو 31اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں وضاحت کے لئے طلب کرلیا اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو کنٹینرز یا دھرنے سے سڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
امپائر صرف پاکستان کی عدالتیں ہیں ، آن گراونڈ آف گراونڈ اور زیرروامپائر بھی عدالتیں ہی ہیں،آزادی اظہار تحریرو تقریر اور نقل و حرکت کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن اِس سے کسی دوسرے شہری کے بھی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیںاور عمران خان نے بھی اگلی پیشی پر اپنی حاضری کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کرادی تھی یہ بڑے تعجب کی بات ہے کے قانون اور عدالتوں کے احترام کی مالا چپنے والی ن لیگ کی حکومت نے بھی بڑی بے صبری اورعدم برداشت کا مظاہر ہ کیا ہے ، اوروقت سے پہلے ہی حکومت نے بنی گلہ اور کمیٹی چوک پر اپنی طاقت کا استعمال کرکے بتا دیا ہے کہ یہ عمران خان کے دو نومبر کے اسلام آباد کو بند کرنے اور دھرنے کے احتجاجی مظاہروں سے خوفزدہ ہے۔
اِس سے انکار نہیں ہے کہ آج پانا ما پیپرز لیکس سمیت کئی حوالوں سے کرپشن پرقائم حکومتی ہٹ دھرمی اپنی جگہہ ہے تو وہیں حکومتی کرپشن اور وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی فیملی کی پاناما پیپرزلیکس کی کرپشن کے خلاف، کرپشن کی روک تھام اور مُلک سنوارو ترقی کرو کے نعرہ عظیم کے ساتھ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوگئے ہیں جن کی آخری دم تک یہی کوشش ہے کہ یہ ن لیگ کے کرپٹ حکمرانوں او ر کرپٹ سیاستدانوں سے مُلک کو نجات دلاکر ہی دم رہیں گے اور دونومبر کو اسلام آباد کی جانب پیش قدمی اور دھرنا سمیت احتجاجوں کا سلسلہ مُلک کو موجودہ کرپٹ حکمرانو سے پاک کرنے تک جاری رہے گا اَب اِس کے لئے جتنی بھی سخت رکاوٹیں راستے میں کیوں نہ حا ئل ہوجائیں مگر حتمی نتیجہ آنے تک عمران خان ساری رکاوٹیں توڑ کر 2نومبرکو اسلام آبادضرور جا ئیں گے اور کرپٹ حکمرانوںکا احتساب سے لے کراِن سے نجات حاصل کرکے ہی اسلام آباد سے واپس لوٹیں گے۔
Islamabad Police
جبکہ گزشتہ دِنوں ایک حکومتی حکم پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کیپٹن (ر) مشتاق احمد نے بھی شہرمیں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ھدود میں2 مام کے لئے دفعہ 144نافذ کردی ہے اسلام آباد سے آنے والی خبروں کے مطابق جاری نوٹیفکیشن میں دفعہ 144کے تحت وفاقی دارالحکومت میں اسلحہ کی نمائش ، لاو ¿ڈ اسپیکر کے استعمال جلسے جلوس اور دھرنے پر پابندی ہوگی پانچ یا اِس سے زائد افراد ایک جگہہ جمع نہیں ہوسکیں گے اور پھر جیسے ہی یہ نوٹیفکیشن نا فذالعمل ہوا تواُدھر ضدی پاکستان تحریک انصاف کے یوتھ فیڈریشن کا کنونشن شروع ہوا اور پھر تُرنت پولیس اور ایف سی کے چاک وچوبند دستوں نے اسلام آباد میں دفعہ 144کی خلاف ورزی کے الزام میں انصاف یوتھ فیڈریشن کے کنونشن پر دھاوا بول دیااور درجنوں لوگوں کو گرفتار کرکے لے جا یا گیا۔
نہ صرف یہ بلکہ دوسری جانب وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی زیرصدارت ہونے والے اعلیٰ سطح کے سیاسی مشاورتی اجلاس میں تحریک انصاف کے دو نومبر کے دھرنے اور اسلام آباد کو بند کرانے والے احتجاجی منصوبے کو نا کام بنانے کے لئے حکومتی مشینری (طاقت)استعمال کرتے ہوئے تین نکات پر مشتمل موثر جوابی حکمت عملی طے کی گئی اور وزیراعظم نوازشریف نے بھی اپنے مخصوص انداز اور لب و لہجے سے اِس عزمِ صمیم کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے دو نومبر کے دھرنے اور اسلام آباد کو بندکرانے کے حوالے سے تمام آپشن کھلے رکھنے کا فیصلہ کیا اور واضح اور دوٹوک الفاظ میں مشاورت کے بعد اہم فیصلے کئے گئے کہ وفاقی دارالحکومت کو بند نہیں کرنے دیا جائے گااور ایسے بہت سے احکامات بھی جاری کئے گئے جن پر حکومتی مشینری کو سخت عمل درآمد کرانے کا عہدوپیماں کئے گئے۔
اِس سارے منظر کے پیشِ نظر اور گھمبیر ہوتی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے راقم الحرف یہ عرض کرناضروری سمجھتاہے کہ وزیراعظم صاحب یہ ٹھیک ہے کہ آج آ پ کی حکومت ہے اور ساری حکومتی مشینری آپ کے ہاتھ میںہے اورآپ کے ساتھ ہے اِسے جس طرح چاہیںآپ استعمال کریں یہ آپ کا حق ہے اور اِسی طرح پی ٹی آئی کے رہنماعمران خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دو نومبر کو اسلام آباد بند کرانے اور ہفتوں دھرنے اور احتجاجوں کے سلسلے کو اپنا قانونی حق ضرور سمجھیں مگر حکومت اور دھرنی اپنے اپنے مقاصد کے حصول میں حدود سے تجاوز نہ کریں اِس ہی میں سب بھلا ئی ہے ورنہ اپنے اپنے گھمنڈاور غرور میں بدمست اور چوردونوں رہنماوں کے ہاتھ سوائے پچھتاوے اور کفِ افسوس کے کی کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔