تحریر : محمد اشفاق راجا وفاقی وزارت داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997ئ’ سیکشن 11 کے (ای) کے تحت فلاح انسانیت فائونڈیشن اور جماعت الدعوة کو واچ لسٹ اور سیکنڈ شیڈول میں شامل کر کے متعلقہ نوٹیفکیشن پنجاب حکومت کو بھجوا دیا جس کی روشنی میں پنجاب حکومت نے گزشتہ روز ان تنظیموں کے متحرک کرداروں حافظ محمد سعید’ عبیداللہ عبید’ ظفراقبال’ عبدالرحمان عابد اور کاشف نیاز کو نظر بند کر دیا۔
وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن اور جماعت الدعوة امن اور سکیورٹی کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کا ارتکاب کررہی تھیں اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1267 کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب جیسی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔ انسداد دہشت گردی شیڈول کے تحت ان دونوں تنظیموں کو چھ ماہ کیلئے واچ لسٹ میں رکھا گیا ہے اور شیڈول 2 کے تحت اب یہ دونوں تنظیمیں اپنی کوئی بھی سرگرمی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتیں۔ نوٹیفکیشن کے تحت ان دونوں تنظیموں کے اکائونٹس بھی منجمد ہو جائینگے۔
جماعت الدعوة کے ذرائع کے مطابق جماعت نے اس حکمنامہ کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ دونوں تنظیمیں فلاحی کام کررہی ہیں۔ حافظ سعید کو جوہرٹائون میں انکی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے کر نظربند کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی نظربندی کے احکام وصول کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا کہ کشمیر کے مسئلہ پر نریندر مودی کی جان نہیں چھوٹے گی۔ انکے بقول نظربندی کا حکم نئی دہلی اور واشنگٹن سے آیا ہے’ انکی نظر بندی بین الاقوامی سازشوں کا نتیجہ ہے۔
حکومت کے بعض قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ حافظ سعید اور انکی تنظیموں کیخلاف ایکشن لینے کے معاملہ میں حکومت کئی روز تک تذبذب کا شکار رہی کیونکہ وفاقی حکومت میں ایک مضبوط لابی جماعت الدعوة کیخلاف کارروائی کی مخالفت کررہی تھی۔ ذرائع کے مطابق واشنگٹن اور بیجنگ کی جانب سے جماعت الدعوةپر پابندی عائد کرنے کیلئے حکومت پاکستان پر باربار دبائو ڈالا جارہا تھا اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی کی طرف سے حکومت کو جماعت الدعوة پر پابندی عائد کرنے کا واضح پیغام دیاگیا جس کے بعد وزیراعظم نوازشریف کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے کئی اجلاس ہوئے اور بالآخر وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے نوٹیفکیشن کے اجراء کا فیصلہ ہوا’ اسکے باوجود حکومتی حلقوں میں جماعت الدعوةکیخلاف سخت کارروائی کے معاملہ میں دو آراء موجود ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے جن پر بعض حلقوں کی جانب سے انتہاء پسند اور کالعدم تنظیموں کے بارے میں ”سافٹ کارنر” رکھنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
جماعت الدعوة اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کو شیڈول2 میں شامل کرنے کے اقدام کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ ان تنظیموں کی 2010, 2011ء سے نگرانی کی جارہی ہے جبکہ جماعت الدعوة کا نام اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں تیار کی گئی واچ لسٹ میں بھی شامل ہے۔ انکے بقول ایسی صورت میں کسی بھی ریاست کو وہ اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں جو پہلے نہیں اٹھائے جاسکے تھے۔ یہ جواز اسلئے بھی بادی النظر میں درست نظر آتا ہے کہ اس وقت حافظ محمدسعید اور جماعت الدعوة کے حوالے سے ایسا کوئی عدالتی ریلیف موجود نہیں جس کی بنیاد پر حکومت ماضی کی طرح ان کیخلاف یہ کہہ کر کارروائی سے گریز کرے کہ حافظ سعید کو ہماری عدالتوں نے آزاد کیا ہے جبکہ حکومت کسی عدالتی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اس تناظر میں اندرونی اور بیرونی دبائو ہی حافظ محمد سعید اور انکے ساتھیوں کی نظربندی اور انکی فلاحی تنظیموں کو واچ لسٹ میں رکھ کر انکے اکائونٹس منجمد کرنے کے حکومتی اقدامات کا محرک ہو سکتا ہے۔
حکومت گزشتہ کچھ عرصے سے اپوزیشن اور بعض دوسرے حلقوں کی اس تنقید کی زد میں تھی کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں کیا جارہا کیونکہ یواین سلامتی کونسل کی واچ لسٹ میں شامل تنظیمیں بشمول کالعدم تنظیموں کے عہدیداران بدستور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس معاملہ میں سب سے زیادہ دبائو وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان پر تھا جن پر متذکرہ تنظیموں کا ہمدرد ہونے کا لیبل بھی لگتا رہا اس لئے ممکنہ طور پر گزشتہ روز کی کارروائی سے نیشنل ایکشن پلان کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کا تاثر زائل کرنا بھی مقصود ہو سکتا ہے جس کیلئے چودھری نثارعلی خاںکو بالآخر جماعت الدعوة’ فلاح انسانیت فائونڈیشن اور انکے عہدیداروں کیخلاف ایکشن لینا پڑا۔ حافظ سعید کی نظربندی کا یہ پہلا واقع نہیں جبکہ وہ ہمیشہ بھارت کی ہٹ لسٹ پر رہے ہیں۔
Jamaat ud Dawa
انہیں بھارتی لوک سبھا پر 13 دسمبر 2001ء کو ہونیوالے حملے کے بعد بھارتی دبائو پر 21 دسمبر 2001ء کو حراست میں لیا گیا اور 31 مارچ 2002ء تک نظربند رکھا گیا جبکہ 31 اکتوبر 2002ء کو انہیں پھر ہائوس اریسٹ کردیا گیا۔ انکی یہ نظربندی لاہور ہائیکورٹ نے غیرقانونی قرار دی تو 11 جولائی 2006ء کو ممبئی ٹرین دھماکوں کے بعد ان کیخلاف کارروائی کیلئے پھر بھارتی دبائو بڑھا چنانچہ اسی سال 9 اگست کو انہیں پھر نظربند کردیا گیا تاہم 28 اگست کو ہائیکورٹ نے انکی نظربندی غیرقانونی قرار دے کر انکی رہائی کا حکم صادر کردیا مگر انکی رہائی کے بعد اسی دن انہیں پھر حراست میں لے کر شیخوپورہ ریسٹ ہائوس میں نظربند کردیا گیا جہاں سے ہائیکورٹ کے حکم پر انہیں 17 اکتوبر 2006ء کو رہائی ملی۔ جب نومبر 2008ء میں ممبئی حملے ہوئے تو بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ سے درخواست کی گئی کہ وہ جماعت الدعو? اور حافظ سعید کیخلاف کارروائی کرے۔
اس پر سلامتی کونسل نے جماعت الدعوة کا نام واچ لسٹ میں ڈالا تو حافظ سعید کو 11 دسمبر 2008ئ کو پھر نظربند کردیا گیا جبکہ انکی یہ نظربندی بھی ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دے دی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کی کوئی بھی واردات ہوتی ہے اور کہیں چڑیا بھی پر مارتی ہے تو حافظ سعید کا نام بھارتی لیڈران کے دل و دماغ میں گھومنے لگتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کے بعد وزیراعظم نوازشریف سے خیرسگالی ملاقات کے موقع پر دراندازی کے الزامات پر مبنی جو لسٹ انکے حوالے کی تھی اس میں حافظ سعید اور انکی تنظیم کیخلاف کارروائی کا تقاضا بھی شامل تھا۔اس بھارتی دبائو کے ساتھ اوبامہ انتظامیہ کے دور میں پاکستان سے کئے جانیوالے ”ڈومور” کے تقاضوں میں بھی حافظ سعید کیخلاف کارروائی نہ ہونے کی صدائے بازگشت ہی سنائی دیتی تھی جبکہ اب ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد تو پاکستان کیلئے اور بھی مشکل صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ ٹرمپ نے دہشت گردی کے حوالے سے مسلم کمیونٹی کو اپنے انتخابی منشور میں نشانے پر رکھا اور اقتدار میں آنے کے بعد متعلقہ مسلم ممالک کیخلاف کارروائی کا عندیہ دیتے رہے۔
اب انہوں نے اپنے منشور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سات مسلم ممالک پر امیگریشن کی پابندی عائد کی تو ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ عندیہ بھی دیا جانے لگا کہ پاکستان بھی ان پابندیوں کی زد میں آسکتا ہے۔ اسی تناظر میں بعض حلقوں کا خیال ہے جس کی امریکہ میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی کے حکومت کو بھجوائے گئے پیغام سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان پر ٹرمپ انتظامیہ کا سب سے زیادہ دبائو حافظ سعید اور انکی تنظیموں کیخلاف کارروائی کیلئے ہی ہے۔ بصورت دیگر اسے پابندیوں والے مسلم ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی دھمکی ملی ہے چنانچہ حکومت کیلئے گزشتہ روز کا اقدام اسکی مجبوری بن گیا تھا۔کچھ ایسا ہی دبائو ہمارے قابل بھروسہ دوست چین کی جانب سے بھی پڑتا محسوس ہوا ہے جو اب تک اقوام متحدہ میں سپاہ محمد? کے مولانا مسعود اظہر پر پابندی کیلئے بھارتی درخواست کو ویٹو کرکے پاکستان کا ساتھ دیتا رہا ہے تاہم بعض ذرائع کے مطابق اب چین نے پاکستان کو واضح پیغام بھجوایا ہے کہ اس نے حافظ سعید اور مسعود اظہر کو کنٹرول نہ کیا تو اس کیلئے اب سلامتی کونسل میں پاکستان کا ساتھ دینا مشکل ہو جائیگا۔
بادی النظر میں یہی وہ اندرونی اور بیرونی دبائو ہے جو حافظ سعید اور انکی تنظیموں کیخلاف کارروائی کا محرک بنا ہے۔ حکومت اس دبائو کی بنیاد پر حافظ سعید اور انکے ساتھیوں کو نظربند کرنے میں حق بجانب ہوسکتی ہے تاہم فلاح انسانیت فائونڈیشن کی سرگرمیاں روکنے اور اسکے اکائونٹس منجمد کرنے کا اقدام انسانیت کی فلاح و بھلائی کا درد رکھنے والے حلقوں کیلئے تکلیف اور دکھ کا باعث بنا ہے کیونکہ یہ تنظیم صرف فلاحی کاموں کیلئے معروف ہے اور قدرتی آفات زلزلے’ سیلاب کے دوران متاثرین کی بحالی اور انہیں خوراک اور طبی سہولتیں فراہم کرنے پر مبنی اسکی خدمات کی خود اقوام متحدہ نے بھی ستائش کی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کیخلاف کارروائی غیرضروری اور بادی النظر میں ”موراوور” کے زمرے میں آتی ہے۔
حکومت کو بہرصورت نیشنل ایکشن پلان کو مکمل عملی جامہ پہنانا ہے جس کی بنیاد پر کوئی حکومتی ایکشن دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے فعال حکومتی اقدام کے زمرے میں آئیگا تاہم ایسے کسی اقدام میں خالصتاً ملکی اور قومی مفاد کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ ہمیں بھی اپنی آزادی اور خودمختاری اتنی ہی عزیز ہے جتنی امریکہ’ بھارت اور دوسرے ممالک کو عزیز ہے۔ اگر فلاح انسانیت فائونڈیشن کا نام سلامتی کونسل کی واچ لسٹ میں بھی شامل نہیں تو اسکی فلاحی سرگرمیاں روکنے اور اسکے اکائونٹس منجمد کرنے کا بادی النظر میں کوئی جواز موجود نہیں۔ اگر عدالتیں اب بھی حافظ سعید اور انکی تنظیموں کی قابل اعتراض سرگرمیوں کے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باعث انہیں ریلیف دیتی ہیں تو حکومت کے پاس ان پر پابندیاں برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔