اپوزیشن جماعتوں کی 9 رکنی رہبر کمیٹی نے حکومت مخالف تحریک ‘ آزادی مارچ ‘ میں شرکت کی منظوری دے دی۔ حزب اختلاف کی جماعتیں موجودہ حکومت کو مزید وقت نہ دینے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ ان کے نزدیک موجودہ حکومت کو مزید وقت نہیں دیا جاسکتا۔دوسری جانب احساس ‘ سیلانی لنگر اسکیم’ کا افتتاح کے موقع پروزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ لوگ صبر نہیں کرتے اور 13 ماہ میں کہتے ہیں ،کہاں ہے نیا پاکستان۔ اب اگر دونوں بیانوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں ایک بات قدر مشترک ہے کہ ” توقعات” پوری نہیں ہورہی ۔اس کی واحد وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ موجودہ حکومت نے الیکشن سے قبل اور بعد میں جو تقاریر کی اس سے عوامی توقعات کا بڑھ جانا فطری امر تھا نیز تحریک انصاف نے عوام کی غلط فہمی بھی دور کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ بیرون ملک بنکوں میں غیر قانونی رقم کی واپسی سمیت اپوزیشن کے لیڈروں کو جیل میں ڈالنے کے بعد” ریکوری ” سے ملکی خزانہ بھر جائے گا۔ گذشتہ حکومت کی جانب سے مئی2014میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ سوئس بنکوں میں غیر قانونی رکھے200ارب ڈالر لانے کے لئے معاہدہ ہوگیا ہے۔
پاکستانی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی شہریوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر سوئس بینکوں میں رکھے گئے 200 ارب ڈالر واپس لانے کے سلسلے میں سوئٹزرلینڈ کی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے۔تحریک انصاف نے پاکستان مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی دیئے گئے بیان کو اپنے جلسے جلوسوں اور تقاریر میں خوب استعمال کیا کہ وہ پاکستانی قوم کے خزانے کو لوٹنے والوں سے 200ارب ڈالر چراغ رگڑتے ہی واپس لے آنے کو اپنا بیانیہ بنا لیا۔ پاکستان میں نوکریاں ہی نوکریاں ہونگی ، بلکہ بیرون ملک سے بھی لوگ پاکستان آکر ملازمت کیا کریں گے ۔ حکومت کی 200ارب ڈالر واپس لانے کا بیانیہ اس قدر مشہور ہوا کہ جب اقتدار میں آنے کے بعد چند ہفتوں میں انہیں علم ہوگیا کہ سب مائع ہے ۔ یہاں تک ایف بی آر کے چیئرمین نے بھی اعتراف کرلیا کہ قانونی طریقہ کار سے جانے والی رقوم واپس نہیں لائی جا سکتیں۔
تحریک انصاف کو قرض و سود کا پہاڑ ورثے میں ملا ، تاہم منظم منصوبہ بندی کئے بغیر اوپر تلے ایسے اقدامات کرتے چلے گئے کہ عوام روز با روز بڑھتی مہنگائی و بے روزگاری سے پریشان ہونے لگے ۔ معیشت کی بحالی کے روز نئے وعدے کئے جاتے اور عوام کو تسلی دی جاتی کہ قوم پر کڑا وقت ہے بہت جلد گذر جائے گا ، لیکن عوام کے کندھوں پر پیٹرول، گیس ، بجلی سمیت ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ مہنگائی کا بوجھ بڑھتا چلا گیا۔ حکومت عوام کو باور کرانے کی کوشش میں لگی رہی کہ یہ سب سابق حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے ہے ۔ زیر گردش قرضوں و سود کو اتارنے کے لئے حکومت نے عرب ممالک اور آئی ایم ایف سے قرض بھی لیا، سخت شرائط پر قرض منظوری سے قبل عمل بھی کردیا ۔ جس سے ملک دیوالیہ ہونے سے توبچ گیالیکن بدقسمتی سے محنت کش طبقہ کو ریلیف نہیں مل سکا ۔ اپوزیشن کا خیال تھا کہ عوام ازخود گھروں سے باہر نکل آئیں گے ، لیکن ان میں اتنی سکت ہی نہیں رہی تھی کہ وہ حکومت مخالف احتجاج کے لئے ذہنی طور پر آمادہ ہوجاتے۔
حکومت کی جانب سے دلاسے و توقعات سے دل بہلانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ یہاں حکومت کے لئے پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ عوام توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو مزید وقت دینا چاہے تاکہ وہ معیشت کو رواںکرسکے ۔ لیکن حکومت کے لئے پریشانی ہے کہ صنعت کار و سرمایہ دار طبقے میں خود اعتماد ی نہیں آرہی ۔ وزیر اعظم سمیت چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی تاجر طبقے کو ہر طور مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہاں تک کہ چیئرمین نیب نے بھی تاجر برداری کو یقین دہانی کرائی کہ انہیں پریشان نہیں کیا جائے گا۔لیکن تاجر طبقے میں ایک اندرونی خو ف ہے کہ حکومت کی پالیسیاں و اعلانات وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوجاتی ہیں ۔آج اگر تحریک انصاف کی حکومت ہے تو مستقبل میں کسی دوسری جماعت کی حکومت یا ایسا نظام آسکتا ہے جو ان سے سب کچھ ” چھین ” لے۔
عوام و تاجر برداری حکومت سے انتہائی بدظن نظر آتے ہیں۔موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی درست سمت کا تعین ابھی تک واضح نہیں ۔ حکومتی ترجیحات اصل میں کیا ہیں یہ بھی گومگوصورتحال کا شکار ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت سیاسی انتقام لے رہی ہو۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت وہ کر جائے گی جو آج تک کوئی نہیں کرسکا ۔ کرپشن و منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار سیاسی رہنمائوں پر مقدمات چل رہے ہیں ، ایک کے بعد ایک ریفرنس دائر ہوجاتا ہے لیکن یہ خبر نہیں آتی کہ کرپشن و منی لانڈرنگ کا کوئی مقدمہ ان سیاسی لیڈروں پر” ثابت” بھی ہوا ہے۔تحریک انصاف ایک بعد ایک اپنے انتخابی وعدوں پر یو ٹرن لیتے چلی گئی اور عوام میں حکومت کے حوالے سے منفی تاثر قائم ہوا کہ حکومت کا بیانیہ و پالیسی پلٹ جاتی ہے۔ان حالات میں جمعیت علما اسلام (ف) کے نزدیک آئیڈیل موقع ہے کہ عوام کی بے چینی کو زبان دیں ، اور حکومت کو دھرنوں کی طاقت سے گرا دیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو پارلیمان سے تبدیلی کے کئی مواقع ملے لیکن باہمی اعتماد میں کمی ( یاگرین سگنل نہ ملنے ) کے سبب پارلیمان سے تبدیلی کی کوشش کو خود اپوزیشن نے ہی ناکام بنایا۔ اپوزیشن اگر کوشش اور سینیٹ و قومی اسمبلی کی ‘ چمک ‘ والی روایات کا استعمال کرتی تو اس وقت یقینی طور پر عمران خان وزیر اعظم نہیں ہوتے ۔ لیکن یہاں باریک نکتہ ہے کہ اپوزیشن پارلیمان میں اکثریتی طاقت رکھنے کے باوجود آئینی طریقے سے حکومت کے خلاف عملی تحریک لانے کے بجائے دھرنوں کا سہارا تلاش کیوں کررہی ہے۔مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ پر حکومتی رویہ غیر لچک دار ہوتا جارہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت چاہتی ہے کہ ایسا ماحول بن جائے جس سے عالمی توجہ پاکستان پر مبذول ہوجائے اور ان کے لئے درمیانی راستہ نکل آئے۔
وزیر اعظم، چین کی طرح کرپٹ عناصرکو جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔ تو انہیں روکا کس نے ہے ۔ تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں ۔ پہلی بار ریاست کے تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لئے بل لائیں ۔ اگر اپوزیشن ساتھ نہیں دے گی تو اس کی کوئی منطق بھی ظاہر کرے گی کہ کرپشن کے خلاف قانون سازی ، انتقامی ہے یا پھر ملک و قوم کے مفاد میں ۔ صرف تقاریر میں اپنی خواہشات کے اظہار سے مسائل کا کوئی حل نہیں نکل سکتا اس کے لئے عملی طور پر بھی کچھ کرنا ہوگا ۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ آزادی مارچ کو روکنے کے لئے حکومت طاقت کے استعمال سے گریز کرے اور وزرا ء کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت دے کہ جب تک آزادی مارچ والے قانون ہاتھ میں نہیں لیتے ، سخت بیانات دینے سے گریز کرنا سب کے حق میں بہتر ہے۔اس کے لئے ضروری ہے میڈیا کو ماضی کی طرح آزادی مارچ و سیاسی قائدین کی تقاریر کی براہ راست کوریج کی اجازت دی جائے تاکہ عوام احتجاج کو بذات خود دیکھ سکیں کہ اپوزیشن دھرنا پُر امن ہے یا پُر تشدد ؟۔