پاکستان کے سیاسی نظام کا بیڑہ غرق اسی دن ہو گیا تھا جب جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے سیاسی جماعتوں پر قبضہ کر کے ملک کی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی یہی وجہ ہے کہ آج ایک طرف تو اسمبلیوں میں کفن چور بیٹھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف بقول صوبائی محتسب اور سابق چیف سیکریٹری پنجاب جناب جاوید محمود کہ پنجاب بھر میں انتظامی ڈھانچہ غیر فعال ہو چکا ہے اور محکمے سر عام بکتی طوائف کی مانند ہیں کیا خوبصورت اور جامع انداز میں بھر پور نقشہ کھینچا گیا ہے۔
ایک طرف تو قانون بنانے والے ہیں تو دوسری طرف قانون پر عملدرآمد کروانے والے ہیں اور دونوں میں شرم ،غیرت اور حیاء نام کی کوئی چیز نہیں ہے دونوں کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے اور دونوں اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے کے ہر ناجائز کام کو جائز قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کسی بھی محکمے میں چلے جائیں وہاں پر ایماندار اور محب وطن ملازم کا ملنا مشکل ہو چکا ہے جو جہاں پر براجمان ہے وہی پر اس نے لوٹ مار کی سیل لگا رکھی ہے جس کے ہاتھ میں جو آتا ہے وہ اسے ہی مال غنیمت سمجھ کر ہضم کر رہا ہے۔
دنیا میں ایسا کونسا کام ہے کہ جو ایک انسان شروع کرے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں وہ ملوں کا مالک بن جائے مگر پاکستان میں ایسا ممکن ہے یہاں پر کرپٹ ،ٹیکس چور اور مزدور کا خون پینے والے چند سالوں میں ایک معمولی سے کام سے بڑی بڑی ملوں کے مالک بن سکتے ہیں شروع شروع میں انکی سرپرستی کرنے والے وہی ملک کے ٹھیکدار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی جاگیروں کی بدولت ملک پر قبضہ کیا ہوتا ہے اور پھر وہی جاگیر دار ان سرمایہ داروں کی کٹھ پتلیاں بن کر ناچتے ہیں۔
انہیں میں سے تربیت یافتہ لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور باقی کے رہے سہے ہمارے سرکاری اداروں میں حکمرانی کا شوق پورا کرنے کے لیے آجاتے ہیں ہوتے تو یہ ملازم ہیں مگر اپنی ساری نوکری میں عوام کو ہی اپنا نوکر اور ملازم بنائے رکھتے ہیں۔
Punjab Assembly
جبکہ انہی کے آقا جو ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی ان سرکاری ملازمین کے زریعے اپنے ناجائز کام کرواتے ہیں اگر کسی کو اب بھی کوئی شک ہو تو وہ اپنے علاقہ کے ایم پی اے، ایم این اے یا کسی سرکاری افسر سے اپنا جائز کام بغیر کسی سفارش کے کروا کر دیکھ لے یہاں پر تو چند ہزار کی مالی امداد لینے کے لیے ایک غریب اور بیوہ کو مہینوں چکر کاٹنے پڑتے ہیں جبکہ کچھ مالشیے اور درباری قسم کے صحافی اپنے بچوں کے علاج کے نام پر لاکھوں روپے خود کھا جاتے ہیں۔
انہی مفاد پرست کالی بھیڑوں نے صحافت کا بھی بیڑہ غرق کر رکھا ہے خود تو لوٹ مار کر کے اپنا سب کچھ بنا لیا جبکہ اپنے ورکروں کو وقت پر تنخواہیں دیتے ہوئے بھی انہیں موت پڑتی ہے جاوید محمود نے تو صرف سرکاری اداروں کو طوائف سے تشبہہ دی تھی مگر میں تو ساتھ پرائیوٹ اداروں کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں جو ان سرکاری اداروں سے کسی صورت کم نہیں ہیں۔
یہاں پر بھی اندھیر نگری ہے پسند، ناپسند اور لابی سسٹم نے یہاں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں ان سب طوائفوں اور کفن چوروں سے نجات کے لیے ایک بہت بڑے آپریشن کی ضرورت ہے اگر یہ نہ ہوا تو پھر کرپشن کا ناسور ناقابل علاج بن جائیگا آخر میں جناب عابد نور بھٹی کے فیس بک سے لی ہوئی ایک نظم اپنے پڑھنے والوں کی نذر۔
جس دیس کی کوٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پہ بکتا ہو جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں جس دیس کی مسجد مندر میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس کی گلی کوچوں میں ہر سمت فحاشی پھیلی ہو جس دیس میں بنت حوا کی چادر داغ سے میلی ہو جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جاپہنچے جس دیس میں پانی بجلی کا فقدان حلق تک جاپہنچے جس دیس کے ہر چوراہے پر دوچار بھکاری پھرتے ہوں جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں جس دیس میں غربت مائوں سے بچے نیلام کرواتی ہو جس دیس میں دولت شرفاء سے ناجائز کام کرواتی ہو اس دیس میں رہنے والوں پر ہتھیار اٹھانا واجب ہے اس دیس کے ہر ایک لیڈر کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے۔