تحریر: عقیل خان کسی بھی ملک کی ترقی میں حکومت اور فوج دونوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ ملک کی باگ ڈور ان دونوں اداروں نے ہی سنبھالنی ہوتی ہے ۔ پاکستانی عوام میں اس وقت فوج کو بہت زیادہ عزت و اہمیت حاصل ہے۔ آرمی چیف راحیل شریف نے جب سے اپنا عہدہ سنبھالا ہے انہوں نے ملک میں امن و امان کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف بھی اہم اقدامات اٹھائے ہیںمگر نہ جانے وہ کون سے عناصر ہیں جو فوج اور حکومت کو لڑانا چاہتے ہیں۔ملک کے خیرخواہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ملک کہ دوبڑے ستون آپس میں ٹکرائیں۔ آپس کی لڑائی نے پہلے ہی پاکستان کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
جس وقت عمران خان اور قادری نے دھرنا دیا تو اس وقت بھی میڈیا پر اطلاعات دی جارہی تھیں کہ اگر میاں صاحب نے اقتدار نہ چھوڑا تو فوج قابض ہوجائے گی ۔کسی نے صبح اور کسی نے شام میں مارشل لا ء لگنے کی اطلاعات دیںمگر اس وقت یہ افواہیں صرف افواہوں تک محدود رہیں۔ اس کے بعد اب پھرکچھ ملک دشمن عناصر فوج اور حکومت کو لڑانے کے لیے کمر کس رہے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ‘آئی ایس پی آر’ نے کورکمانڈر اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کیاجس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے دیرپا نتائج اور پائیدار امن کے لیے حکومت کو بھی بہتر طرز حکمرانی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔اس بیان سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ فوج نے حکومت کوکوئی حکم نہیں دیا بلکہ اپنی رائے دی ہے کہ مزید بہتر اقدامات کیے جائیں۔ یہ بیان میڈیا پر سب نے سنا اور اس بیان سے کہیں ایسا محسوس نہیںہورہا کہ فوج حکومت کے خلاف ہے یا فوج اور حکومت میں کوئی اختلافات ہیں۔
Politicians
نہ جانے چند سیاستدان اس بیان کو ایشو بنا کر کیا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟ مختلف پارٹی کے قائدین نے اس بیان پراپنا ردعمل بھی دے دیا ہے ۔ سب سے پہلے پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا”میں نے اس ایوان میں کھڑے ہوکر بات کی تھی اگر دو شریف ایک صفحے پر ہوں گے تو ہم غیر مشروط حمایت کریں گے۔ میں ا ب بھی یہ کہتا ہوں کہ دو شریف ایک صفحے پر ہوں گے تب ہی آئین بالادست ہو گا۔ اگر خدانخواستہ ان دو شریفوں کے درمیان گڑبڑ ہوئی تو میں سویلین شریف کے ساتھ (کھڑا) ہوں گا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی کہا کہ اْنھیں توقع ہے کہ وزیراعظم فوج کے سربراہ کے پیغام کو سمجھیں گے اور اپنی کابینہ کو درست کریں گے۔ساتھ ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ وہ وقت گیا جب مارشل لا لگتا تھا۔ان کے علاوہ کئی دوسرے سیاستدان ہیں جنہوں نے اس بیان پر اپنا ردعمل میڈیا پر آکر دیا ہے۔ سیاستدانوں کے اس طرح کے بیانات کے بعد عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جارہا ہے کہ شاید دونوں شریفوں میں کوئی اختلاف ہے؟۔جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے ۔ فوج اور حکومت ایک پلیٹ فارم پر ہے۔ دونوں نے پاکستان کی ترقی کا حلف لیا ہوا ہے۔آرمی چیف کی وجہ سے ہی پاکستان میں آج امن قائم ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے مشرف بھی اقتدار کا مزہ لے چکے ہیںآرمی چیف ہونے کے باوجود دہشت گردی کو ختم نہ کرسکے۔ ق لیگ اور پی پی بھی اپنی ٹرم پوری کرچکے مگر وہ بھی پاکستان سے دہشت گردی تو دور ڈرون حملے بھی نہ رکوا سکے۔
Nawaz Sharif and Raheel Sharif
نوازشریف اور راحیل شریف (دونوں شریف) کے تعاون سے آج پاکستان میں عوام سکھ کا سانس لے رہی ہے۔آج پاکستان بدلا ہوا پاکستان نظر آرہا ہے۔امن و امان کی بات ہو یا دہشت گردی کی، کرپشن کی بات ہو یا کراچی کی سب پر عوام کی نظر ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بلوچستان کے حالات روز بروز بہتری کی طرف جارہے ہیں ۔ضرب عضب کی کامیابی کا سہرا کس کے سر ہے؟ان سب کو دیکھ کر کون سوچ سکتا ہے کہ پاک فوج اور حکومت ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ یہ پروپیگنڈا وہ عناصر پھیلارہے ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ دونوں شریف ملکر ملک کو ترقی کی طرف لے جائیں۔ ایسی افواہیں پھیلانے میں وہ محرکات شامل ہیں جو کرپشن میں ملوث ہیں۔ کوئی بھی محب وطن نہیں چاہے گا کہ پاکستان پھر سے غیر مستحکم ہو۔
آج پشاور سے کراچی تک ہر کوئی آرمی چیف کو نجات دہندہ سمجھتا ہے۔بلدیاتی انتخابات میں لوگوں نے اپنے پوسٹروں اور فلیکس آرمی چیف راحیل شریف کی تصاویر لگوائیں۔عوام کا آرمی چیف سے اس طرح محبت کا اظہار کرنا اور پھر بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کا واضح اکثریت سے جیتنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ آئی ایس پی آر کے بیان کو متنازعہ نہ بنایا جائے بلکہ ایک محب وطن کی طرح ان عناصر کی طرف توجہ دیں جو ملک کے لیے بہتر ہوں۔
خدارا ان لوگوں کو پہچانیے جو ہمارے ملک کو ترقی کی طرف گامزن دیکھ کر ہمارے درمیان دراڑ یں ڈالنا چاہتا ہے۔بھارت پہلے ہی ہماری جڑیں کھوکھلی کررہا ہے اور ہم اس طرح کی بحث میں الجھ کر اپنے دشمن کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کچھ گڑبڑ ہے۔ اگر آرمی اور رینجرز کی معاونت سے ملک دشمن عناصر کی سرکوبی سندھ اور خیبر پختونخواہ سمیت بلوچستان میں بھی ہوتی ہے تو پنجاب میں بھی ایسی کسی اقدام کی نہ تو عوام مخالفت کرے گی اور نہ ہی کوئی ملکی ادارہ اور سیاسی جماعت۔ ضرورت اس امرکی ہے ہم سب سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے دو قومی نظریہ پر قائم ہونے والی اسلامی ریاست کی بقا کے لیے متحد ہوں اور واقعی پاکستان کو اسلامی ممالک کا قائد ثابت کریں۔