اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں منصفانہ انتخابات ایک خواب بن کر رہ گے ہیں۔پاکستان دو لخت ہو گیا لیکن انتخابی نتائج کی شفافیت اور عملداری غیر جابدار نہ بن سکی۔ عوامی ووٹ سے جیتنے والوں کو غدار کہہ کر ان پر مقدمات دائر کئے گے تاکہ اقتدار کی مر کزیت متاثر نہ ہو سکے ۔پولنگ سٹیشن پر قبضوں، بیلٹ پیپروں پر ٹھپوںاور انتخا بی نتائج کے خود ساختہ اور جعلی اعلانات تک سب کچھ ان ہاتھوں میں مرتکز ہو تا رہا جھنیں عرفِ عام میں مقتدرہ کہا جاتا ہے۔فارم ٤٥ کی فراہمی اور اس پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخطوں کی کس کو پرواہ ہو گی کیونکہ انھیں تو گنتی سے پہلے ہی پولنگ سٹیشنوں سے مار مار کر بھگا دیا جاتا ہے تا کہ من پسند امیدوار کی جیت کا اعلان کیا جا سکے۔کمزوروں کا کام بھاگنا ہی ہوتا ہے۔
کون چاہے گا کہ اس کا نام اس فہرست میں آئے جھنیں لا پتہ اور گمشدہ افراد کہا جاتا ہے۔کتنے دھرنے ہوئے، کتنے احتجاج ہو ئے کتنے جلوس نکلے لیکن لا پتہ افراد کا کوئی اتا پتہ نہ لگ سکا۔وہ اب بھی گمشدہ ہیں اور اس وقت تک گمشدہ رہیں گے جب تک ان کے جسم سے ان کی آخری سانسیں ختم نہیں ہو جاتیں۔جب کچھ نہیں بدلنا تو پھر انسان اپنی جان کو نا حق عذاب میں کیوں جھونکے ۔جب مقتدرہ کا تسلط ایسے ہی رہنا ہے توانتخابی نتائج میں انجینئرنگ کو کوئی نہیں روک سکتا۔۔ان کی مرضی اور منشاء کو مقدم جان کر ہی سیاست کی گاڑی رواں دواں رہ سکتی ہے۔جن قائدین نے مزاحمت کی کوشش کی ان میں سے کئی سرِ دار جھول گے اور کئی سرِ عام قتل کر دئے گے لیکن مقتدرہ کی روش پھر بھی نہ بدلی ۔ طاقت کا نشہ انسان کو کہاں بدلنے دیتا ہے۔جب طاقت مٹھی میں بند ہو تو پھر کسی دوسرے کی اہمیت کہاں باقی رہتی ہے۔دوست صفِ دشمناں میں چلے جاتے ہیں کیونکہ اب ان کا وجود کسی بوجھ سے کم نہیں ہوتا ۔ مقتدرہ جو چاہتا ہے اور جیسا چاہتا ہے ویسا ہی ہو جاتا ہے لہذا ان کی خوشنودی سے رو گردانی کرنے کا مطلب خود کو بھنور کی نذر کرنا ہوتا ہے ۔وہ کھل جا سم سم کے الفاظ دہراتے ہیں تو ہر قسم کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے ۔ جب ہاتھوں کی جنبش سے دروازے کھل جائیں تو پھر انھیں للکارنے والواں اور ان سے اقتدار چھننے والوں کا جو حشر ہو گا اسے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
بے پناہ طاقت کا حامل ہونے کی وجہ سے مقتدرہ آج بھی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں زندہ ہے ۔وہ آج بھی سب کچھ اپنے مقرر کردہ اہداف کے مطابق دیکھتا اور تشکیل دیتا ہے ۔اسے کسی کے احتجاج اورنا راضگی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ سب اسی کی جنبشِ آبرو کے محتاج ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی کو بھی اس بات کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی پالیسی تشکیل دے کر اسے نافذ کر سکے ۔ باتوں کی حد تک آزادیِ اظہار اور شفاف انتخابات کے بڑے بڑے د عو ے کئے جائیں گے لیکن یہ جعلی دعوے حقیقت کی پتھریلی چٹا نوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتے رہیں گے۔جھنیں اقتدار میں لانا مقصود ہو تا ہے ان کے نام کا ڈنکا پہلے ہی بجا دیا جاتا ہے ۔ لفافہ صحافت کے پروردہ ضمیر فروش صحافی مقتدرہ کی خواہشوں کو لباسِ مجاز میں پیش کرنے کا مقدس فریضہ نبھاتے رہتے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا پر اقتدار کے سورج کے سامنے جھکنے والوں کا مقتدرہ کو سلام پیش کرنا اب مستقل وطیرہ بن چکا ہے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنا ایسے ڈھنڈورچیوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ زمینی حقائق سے کچھ تعلق واسطہ بھی رکھتا ہے یا محض ہوا میں تیر اندازی ہو رہی ہے۔انھیں مقتدرہ کو خوش کرنا ہو تا ہے لہذو وہ اس کارِ خیر کو بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے ہیں ۔ تعریف و توصیف ان کی تحریروں اور ان کے مقالات سے ایسے جھلکتی ہے جیسے موسمِ بہار میں شاخو ں پر پھول کھلتے ہیں۔وہ اپنے الفاظ پر نہ تو نادم ہو تے ہیں اور نہ ہی شرمندہ کیونکہ جھوٹ اور سچ کااظہار ان کا ہدف نہیں ہوتا بلکہ ان کا ہدف ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے اور مفادات سے تبھی جھولیاں بھری سکتی ہیں جب شاہ اور شاہ پرستوں کی مدح سرائی کی جائے۔
٢٠١٨ کے انتخابات کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ دھاندلی زدہ انتخابات تھے اور پی ٹی آئی کی جیت سے میاں محمد نواز شریف کو سبق سکھانا مقصود تھا۔کرپشن، لوٹ مار اور قومی دولت سے کھلواڑ کا ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جس نے مخالفین کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ جیلیں،زندانیں، ہتھکڑیاں اور جلا وطنیاں ان قائدین کا مقدر بنی ہوئی ہیں جو مقتدرہ سے ٹکرانے کا عزم رکھتے ہیں۔عمران خان نے انتخا بی دھاندلی کے خلاف اپنے سیاسی کزن ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کی معیت میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے خلاف ١٤ اگست ٢٠١٤ کو لانگ مارچ کیا تھا ۔عمران خان نے اپنے احتجاج میں چار حلقے کھلولنے کا مطالبہ تھا جسے در خو رِ اعتنا نہ سمجھا گیالہذا انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ جب اقتدار میں آئیں گے تو پورے ملک کے حلقے کھلوائیں گے تا کہ جہاں جہاں پر دھاندلی کا شائبہ ہو اسے دور کیا جا سکے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان کے لاہور والے اپنے حلقے میں جہاں پر وہ خواجہ سعد رفیق کے مدِ مقابل تھے جب وہاں دوبارہ گنتی کا حکم صا در ہوا تو حکومت نے اس حلقے کی گنتی رکوا دی تھی کیونکہ دوبارہ گنتی میں خواجہ سعد رفیق جیت رہے تھے ۔اس نشست کو عمران خان نے خالی کیا تو ضمنی الیکشن میں خواجہ سعد رفیق اپنے حریف ہمایوں اختر کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر بن گے ۔دھاندلی کی تحقیقات کے لئے عمران خان نے قومی اسمبلی کی ایک کمیتی تشکیل دی تھی تا کہ انتخا بات میں دھاند لی کا سراغ لگایا جا سکے اور جہاں جہاں دھاندلی کی شکایات ہوں وہ حلقے کھلول کر دوبارہ گنتی کرکروائی جائے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ آج تک اس کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہیں بلا یا گیا۔،۔
٢٠ ستمبر کو اے پی سی اجلاس میں دھاندلی کا نقطہ ایک دفعہ پھر شدو مد سے موضوعِ سخن بنا ۔گیارہ جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے حکومت پر عوامی مینڈیٹ چرانے کا الزام لگا کر دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ میاں محمد نواز شریف کے خطاب نے ملکی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔انھیں چند ماہ قبل بیماری کے علاج کیلئے خصوصی پرواز سے لندن بھیجا گیا تھا لیکن ان کے حقائق کشا خطاب سے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔کمزور معیشت،بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے حکومت اے این پی،پی پی پی،مسلم لیگ (ن) اور جمعیت العلمائے اسلام کی عوامی حمائت سے سہمی ہوئی ہے ۔مولانا فضل الرحمن کا دھرنا حکومت کے اعصاب پر بری طرح سے سوار ہے اور اگر اس میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے ہلہ بول دیا تو حکومتی نائو کو ڈوبتے دیر نہیں لگے گی۔
بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے جرات مندانہ اندازِ سیاست سے حکو مت کے قدم پہلے ہی اکھڑے ہوئے ہیں ۔میاں محمد نواز شریف کی للکار نے طلاطم خیز جذبات کو مزید ہوا دے دی ہے۔جو لوگ میاں محمد نواز شریف کی سیاست کا تھوڑا بہت ادراک رکھتے ہیں انھیں علم ہو گا کہ میاں محمد نواز شریف پلٹ کر حملہ کرنے میں اپنا ثا نی نہیں رکھتے۔غلام ااسحاق خان ، جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف اس کی واضح مثالیں ہیں ۔وہ بیمار ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے قومی یکجہتی کو بچانے کیلئے جو جرات مندانہ خطاب کیاہے وہ وقت کی ضرورت تھی ۔ اختلافِ رائے کا حق تو سب کو ہے لیکن کیا کوئی اس بات کو جھٹلا سکتا ہے کہ شفاف،منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخا بات ہی وطنِ عزیز کو متحد رکھ سکتے ہیں۔میاں محمد نواز شریف کا خطاب در اصل اسی یکجہتی کی صدائے باز گشت تھا۔ملکی مفاد کی خاطر مصلحت پسندی کی بجائے جرات مندانہ موقف اپنا کر جمہوری عمل کو تقویت دینی ہو گی۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال